Sirate nabi 25 to 27

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 25..

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ھوۓ تو فورا" حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لیے بھیجا گیا.. حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں.. ان کا اصل نام برکہ تھا.. ان کی شادی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کردی تھی جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ھوۓ..

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا خوشی کے مارے دوڑتی ھوئیں حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی.. حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا سن کر وہ بےحد مسرور ھوۓ اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ فورا" گھر پہنچے.. وھاں "ننھے حضور" صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا.. پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا..

(یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ , دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ھاشم تینوں ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح نہائت خوبصورت اور مردانہ وجاھت کا پیکر تھے)

بہقی مختلف حوالوں سے جن میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل ھیں , بیان کرتے ھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختون یعنی ختنہ شدہ پیدا ھوۓ تھے جس پر حضرت عبدالمطلب نے بہت مسرت آمیز حیرت کا اظہار فرمایا..

بہقی نے ھی مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کردیا.. وہ ھر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا.. وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو ھمیشہ بیدار ھی نظر آتے ھیں اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رھتے ھیں.. اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ھے کہ ان کا پوتا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شان والا ھوگا..

شروع کے چند دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا.. دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ھوا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا "ابو لہب" کی کنیز تھیں.. ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں انھیں آزاد کر دیا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا.. ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا..

افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا اور وہ اور اس کی بیوی "ام جمیل" ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رھے..

ابولہب شروع اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شائد سب سے بڑا مخالف تھا.. غالبا" یہی وہ شخص ھے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بربادی کی بدعائیں دیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی.. اسکی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں سے گزرنے والے ھوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی.. ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ھوئی جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ھے.. اسکا تفصیلی ذکر آگے آۓ گا..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

@@##$$$#@#$

Dr.Zubair Ahmed Abdul Rauf:

@@#$$##$$@@#$$

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 26..

ولادت مبارکہ کے ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیقہ کی رسم ادا کی گئی.. اس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ کو دعوت دے کر شریک کیا.. دوران مجلس قریش مکہ میں سے کسی نے دریافت کیا.. "اے عبدالمطلب ! کیا آپ نے اپنے پوتے کا کوئی نام بھی رکھا ھے..؟"

حضرت عبدالمطلب نے فرمایا.. "ھاں میں نے اس کا نام "محمد" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا ھے.."

یہ نام سن کر قریش مکہ نے بہت تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کیسا نام ھے کیونکہ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی کا نام "محمد" نہ رکھا گیا تھا اس لیے قریش مکہ کی حیرت بجا تھی..

اس زمانہ میں دستور تھا کہ شھر کے رؤساء اور شرفاء اپنے شیرخوار بچوں کو اطراف کے دیہات اور قصبات میں بھیج دیتے تھے.. یہ رواج اس غرض سے تھا کہ بچے شھری ماحول سے دور ان دیہات اور قصبوں کے خالص بدوی ماحول میں پرورش پاکر نہ صرف خالص عربی زبان سیکھ سکیں اور اپنے اندر فصاحت و بلاغت کا جوھر پیدا کرسکیں بلکہ وھاں چند سال رہ کر عربوں کی خالص خصوصیات بھی اپنے لاشعور میں سمو سکیں..

شرفاء عرب نے مدتوں اس رسم کو محفوظ رکھا.. یہاں تک کہ بنو امیہ نے دمشق میں پایہ تخت قائم کیا اور شاھانہ شان و شوکت میں کسری' و قیصر کی ھمسری کی.. تاھم ان کے بچے حسب معمول صحراؤں میں بدوؤں کے گھر ھی پرورش پاتے رھے لیکن خلیفہ "ولید بن عبدالملک" جب کچھ خاص اسباب کی وجہ سے وھاں نہ جا سکا اور حرم شاھی ھی پلا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عربی کی فصاحت و بلاغت سے محروم ھوگیا اور بنوامیہ میں وہ واحد خلیفہ تھا جسے فصیح و بلیغ عربی صحیح طرح سے بولنا نہیں آتی تھی..

غرض اس دستور مذکورہ کی خاطر اطراف کے دیہات و قصبات سے عورتیں سال میں دو مرتبہ شھروں کا رخ کرتی تھیں جہاں شھر کے شرفاء اور رؤساء اپنے بچے ان کے حوالے کردیتے اور ساتھ میں معاوضہ کے طور پر ان عورتوں کو اتنا کچھ روپیا پیسہ مل جاتا کہ ان کی زندگی بھی آرام سے گزرتی..

اسی دستور کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کے چند روز بعد قبیلہ بنو ھوازن کی چند عورتیں شیرخوار بچوں کی تلاش میں مکہ آئیں.. ان میں سے ایک حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں.. اتفاق سے باقی سب عورتیں تو بچے حاصل کرنے میں کامیاب رھیں مگر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بوجوہ بچہ حاصل کرنے میں ناکام رھیں..

اب وہ کیوں ناکام رھیں اور پھر کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں , اس کے متعلق کتب تاریخ میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کیے گئے نہائت ھی دلچسپ واقعات کا ذکر کیا گیا ھے.. چونکہ یہ واقعات تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ھے اور یہاں قسط کی غیرضروری طوالت کا خطرہ ھے تو ان شاء اللہ یہ سب دلچسپ واقعات اور پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آنے والے عجیب و غریب معجزات کا ذکر آئندہ قسط میں کیا جاۓ گا..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

@@@@@####$$$$///

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 27..

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی چند ھم قبیلہ عورتوں کے ساتھ مکہ وارد ھوئیں.. وہ کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں , اس قسط میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی وہ سب دلچسپ واقعات بیان کیے جائیں گے..

ابن اسحق , جہم بن ابی جہم کی روایت سے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی باتیں بیان کرتے ھیں کہ انہیں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ سارا واقعہ سنایا.. حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ھیں کہ..

"جب قبیلہ بنی سعد (بنو ھوازن اسی بڑے قبیلہ کا ایک ذیلی قبیلہ تھا جس سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا) میں کسی سال مکہ میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی تو بنی سعد کی عورتیں ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے مکہ کی طرف لپکنے لگتی تھیں.. پھر ایک سال ایسا ھی ھوا کہ مکہ کے معزز اور شریف خاندانوں میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر ملی تو بنی سعد کی دس عورتیں جن میں میں بھی شامل تھی , اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ اور اپنے ایک شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں.. یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا.. میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی لیکن واللہ ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا.. اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے.. نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی.. بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے.. میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا..

خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے.. پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ووہش کی امید رکھتے تھے.. ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے , بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں.. بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے..

ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا.. جب واپسی کی باری آئی تو مجھے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا.. میں نے اپنے شوہر سے کہا.. "اللہ کی قسم ! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں.. میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں.. شوہر نے کہا.. "کوئی حرج نہیں.. ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے.." یہ فیصلہ کرکے جہاں میری ساتھی عورتوں نے رات بھر کے لیے پڑاؤ ڈالا تھا , میں بھی رات گزارنے کے لیے وھیں ان کے ساتھ پڑگئی..

وہ ساری رات میری آنکھوں میں کٹ گئی کیونکہ نہ تو میرے یا میرے شوہر کے کھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ھی میری گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا تھا.. میرا شیرخوار بچہ عبداللہ ساری رات میرے پستان چچوڑتا رھا لیکن چونکہ میں خود اس رات فاقہ سے تھی تو میری چھاتیوں سے دودھ کہاں سے اترتا.. خیر وہ رات تو میں نے جیسے تیسے جاگ جاگ کاٹ لی اور صبح ھوتے ھی وھی یتیم بچہ لینے چل دی.. یہ بھی خیال تھا کہ اس بچے کی ماں سے اتنا تو پیشگی مل ھی جاۓ گا کہ جس سے میں اپنے اور اپنے شوہر کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز اور اپنے گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا لے سکوں گی..

جب میں اس بچے کو لینے اس کی ماں کے پاس پہنچی تو وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور اپنا بچہ مجھے دیتے ھوۓ اس کی دودھ پلائی کی جو رقم مجھے دی وہ بھی میری توقع سے زیادہ تھی.. اس کے علاوہ وہ بچہ جسے میں یتیم سمجھ کر مجبورا" لینے آئی تھی , اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی نہ دیکھا تھا.. وہ جب ھمک کر میری گود میں آیا اور پھر میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا کہ جس کا بیان کرنا مشکل ھے..

جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے اور اس نے شکم سیر ہوکر پیا.. اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا , پھر دونوں سوگئے حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے.. ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے.. انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری.. صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا.. "حلیمہ ! اللہ کی قسم ! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے.." میں نے کہا.. "مجھے بھی یہی توقع ہے.."

اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا.. میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم ! پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا.. یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں.. "او ابو ذویب کی بیٹی ! ارے یہ کیا ہے..؟ آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی..؟ (لیکن اب اتنی تیز رفتار کیسے)" میں کہتی.. "ہاں ہاں ! اللہ کی قسم یہ وہی ہے.." وہ کہتیں.. "اس کا یقینا کوئی خاص معاملہ ہے.."

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول ؛ڈاکٹر زبیر احمد حفظہ اللہ
الداعی الی الخیر -عبدالستاربدرجی گوگی

No comments:

Post a Comment