السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگا سکتی ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیوی کا اپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تعریف کے باب سے ہے، جس میں وہم یا اختلاط نسب نہیں ہوتا، اور تعریف کا باب بہت وسیع ہے،تعریف کبھی ولاء سے ہوتی ہے جیسے عکرمہ مولی ابن عباس ، کبھی حرفت سے ہوتی ہے جیسے غزالی ،کبھی لقب اور کنیت سے ہوتی ہے جیسے أعرج اور ابو محمد أعمش،کبھی ماں کی طرف نسبت کر کے ہوتی ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے جیسےاسماعیل ابن علیۃ،اور کبھی زوجیت کے ساتھ ہوتی ہےجیسا قرآ ن مجید میں ایک جگہ
’’ امرأۃ نوح وامرأۃ لوط ‘‘ ( التحریم:۱۰) اور دوسری جگہ ’’ امرأۃ فرعون ‘‘ ( التحریم:۱۱) وارد ہے۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے ،سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
جَاءَتْ زَيْنَبُ، امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: «أَيُّ الزَّيَانِبِ؟» فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «نَعَمْ، ائْذَنُوا لَهَا» (بخاری :۱۴۶۲)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب آئیں اور اجازت طلب کی ،کہا گیا :یا رسول اللہ ! یہ زینب آئی ہیں،آپ نے پوچھا: کونسی زینب؟ کیا گیا :ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی،فرمایا: ہاں اسے آنے کی اجازت دے دو۔
یاد رہے کہ نسبت وہ حرام ہے جس میں بنوت کے لفظ کے ساتھ غیر باپ کی طرف نسبت کی جائے۔مطلقاً نسبت یا تعریف کے لئے نسبت کرنا حرام نہیں ہے۔
البتہ اگر نسبت بنوت کے لفظ کے ساتھ غیر باپ کی طرف کی جائے تو وہ حرام ہے ،جس کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔:
’’ ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله ‘‘ ( سورة الأحزاب)
’’ انہیں ان کے باپوں کے نام سے بلاؤ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
No comments:
Post a Comment