ISLAMI MAQSAD E HAYAT
اسلامی مقصد حیات
اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پتاچلتا ہے کہ کائنات ہستی اور اس کا ایک ایک وجود بلا شک و شبہ با مقصد تخلیق کیا گیاہے ۔ موجودات عالم کاکوئی ذرہ ایسا نہیں جس کی پیدائش عبث اور بے مقصد ہو۔ خود قرآن حکیم اس حقیقت کی شہادت یوں دیتا ہے :
وہ جو اٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں )اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد ) پیدا نہیں کیا۔
(قرآن مجید، سورہ آل عمران 3، آیت : 191)
یہاں با مقصد تخلیق کا یہ اعتراف تو انسانوں کی زبان سے کروایا گیا ہے ۔ اب خود رب تعالیٰ اعلان فرماتا ہے :
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بے مقصد (اور اتفاقیہ )نہیں بنایا بلکہ ہم نے تو انہیں خاص مصلحت کے تحت بنایا ہے ۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
(قرآن مجید، سورہ دُخان 44، آیت: 39-3)
لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک مخصوص حکمت کے تحت، ایک متعین مدّت تک کے لیے اپنا کام کررہی ہے۔ جب تمام چرند، پرند اور درند ایک خاص مقصد کے لیے وجود پزیر ہوئے ہیں ، بلا مقصد تخلقیق کرنا خود شان الوہیت کے ہی منافی ہے۔ رب کائنات کاکوئی بھی فعل خالی ازحکمت تصورکرنا کفر ہے۔ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی چیز میں پوشیدہ حکمتِ الٰہی ہما ری سمجھ میں نہ آسکے لیکن اِس سے ہما ری عقل کا ناقص ہونا ثابت ہوتاہے، اﷲکی کوئی بھی تخلیق بے کا ر قرار نہیں دی جاسکتی۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کی سب سے اشرف وافضل مخلوق ’انسان‘ کو یوں ہی بے کار ، بے مقصد اور محض موج ومستی یا کھانے کمانے کے لیے پیدا کیاگیاہو۔ یہ امر نا قابل اعتبار ہے اور یقیناً قرآن میں بھی حیات انسانی کو بے مقصد قرار نہیں دیا گیا۔ موت و حیات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن واضح کرتا ہے :
وہ (ذات) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر جد و جہد کون کرتا ہے اور وہی عزت والا بخشنے والا ہے ۔
(قرآن مجید، سورہ ملک 67، آیت : 2)
صاف ظاہر ہے کہ عملی جد وجہد کے لیے کوئی نہ کوئی مقصد اور نصب العین درکار ہوتا ہے ۔ جس کے حصول کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس کی مطابقت یا عدم مطابقت کے لحاظ سے جد و جہد کرنے والوں کے اعمال کا مقام متعین ہوتا ہے کہ آیا وہ شخص کامیاب رہا یا نا کام، اس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا یا نہیں۔ قرآن کے مطابق زندگی مقصد کے حصول کی جد و جہد سے عبارت ہے اور موت اس کے اخروی انجام و نتائج سے۔ اس لیے انسانی زندگی کا با مقصد ہونا خود نظام کائنات کے جواز کی بنیادی دلیل ہے ۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین ’’ اخلاقی کمال کا حصول‘‘ ہے ۔ اس سلسلے میں یہ آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے :
اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے(اور یہ کہ ) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کسی روزی کا طلبگار نہیں اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں ۔
(قرآن مجید، سورہ ذاریات 51، آیت : 57-55)
اس آیت نے بڑی صراحت کے ساتھ انسانی زندگی کامقصد اور اس کی غرض تخلیق بیان کردی کہ انسانوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی کسی اپنی حاجت کے لیے نہ تھا ، کیوں کہ وہ ذات تو بے نیاز اور غنی و رزاق ہے ۔ باری تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا :
بے شک اللہ ہی ہر ایک کو روزی دینے والا بڑی قوت و قدرت والا ہے۔
(قرآن مجید، سورہ ذاریات 51، آیت : 5)
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
کہ اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے، اور اپنے بندوں کی ناشکری اسے پسند نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وه اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے۔ اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تم سب کا لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تمہیں وه بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ بلا شبہ وہ سینوں کے راز تک جانتا ہے۔
(قرآن مجید، سورہ زمر 39، آیت : 7)
اسے کسی لحاظ سے بھی کسی مخلوق کی کوئی حاجت اور ضرورت نہ تھی ، اس لیے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تخلیق انسانیت میں شاید خدائے تعالیٰ کی اپنی خلاقیت کی ضرورتِ نمود ونمائش کا دخل تھا یا اس کی کسی صفت کی تکمیل اس امر کی محتاج تھی یا س کی اپنی ہستی وجود ِخلق کی ضرورت مند تھی ۔ ہرگزنہیں، اس ذات نے تمہیں پیدا کیاتو صرف اس لیے کہ تم اس کی بندگی کرکے اخلاقی کمال حاصل کر سکو۔ کیوں کہ اس کی بندگی کے شعور میں تمہاری ہی منفعت ہے اور اس کی بندگی اختیار کرنے میں تمہارا ہی کمال ہے ۔
اس لیے انسان کے مقصد تخلیق کے بیان کو قرآن نے’ ذکریٰ‘ یعنی نصیحت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہوئے اعلان فرمایا :
بے شک یہ نصیحت (یعنی شعورِ بندگی) یقیناً ایمان والوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔
(قرآن مجید، سورہ ذاریات 51، آیت : 55)
اگرا نہیں اپنے مقصد تخلیق کا شعور حاصل ہوگیا اور انہوں نے اسے بطور نصب العین اختیار کر لیا تو اس سے وہ باکمال ہو سکیں گے۔ اور یہی اخلاقی کمال ان کے لیے حقیقی منفعت کا باعث ہوگا۔
آیت مذکورہ میں ’’عبادت‘‘ کے لفظ سے شاید کسی کو یہ گمان پیدا ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ مثلا نماز، روزہ، حج، زکاۃ وغیرہ اور انہیں عبادت کا بجالانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے ۔ یہ تصور غلط ہے ۔ کیوں کہ قرآن عبادت اور بندگی کو انسانی تخلیق کا واحد مقصد قرار دے رہا ہے۔
اگر عبادت سے مراد محض نماز ہو تو وہ تو دن میں صرف پانچ وقت کے لیے فرض ہے ۔ بقیہ اوقات میں نہیں، اس طرح یہ تصور لازم آئے گا کہ خدائے تعالیٰ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چندلمحات پانچ نمازوں کے لیے مقرر کرکے انسان کو اپنے مقصد اور نصب العین کی طرف متوجہ کیا اور باقی سارا وقت اسے اصل مقصد تخلیق سے بے نیاز ہوکر گزارنے کے لیے چھوڑ دیا؟
اگر عبادت سے مراد محض روزہ ہو، تو وہ تو سال میں صرف ایک ماہ کے لیے فرض ہے ۔ بقیہ مہینوں میں نہیں۔ اس طرح یہ تصور لازم آئے گا کہ خدائے تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک ماہ کے لیے انسان کو اپنے مقصد اور نصب العین کی طرف متوجہ کیا اور باقی سارے عرصے میں اسے اصل مقصد سے صرف نظر کرنے کی اجازت دے دی؟
اگر عبادت سے مرادمحض زکاۃ ہو ، تو وہ بھی سال میں صرف صاحب نصاب کے لیے ایک مرتبہ فرض ہے ۔ اس طرح بقیہ عرصہ میں اور دیگر لوگوں کے لیے اپنے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہی ؟
اگر عبادت سے مراد محض حج ہو تو وہ بھی صاحب استطاعت کے لیے عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض تو کیا بقایا عمر مقصد حیات سے صرف نظر کرتے ہوئے بسر ہوگی؟
اگر ارکان اسلام کے علاوہ دیگر جملہ عبادت کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ ساری کی ساری مل کر بھی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط نہیں ہو سکتیں۔ انسان کھاتا پیتا بھی ہے ، سوتا جاگتا بھی ہے ۔ شادی بیاہ بھی کرتا ہے تجارت اور کاروبار بھی کرتا ہے اور دیگر ہر طرح کے معاملات زندگی بھی نبھاتا ہے ۔ ان تمام معاملات کو ’’عبادات‘‘ کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ۔ پھر اس سارے کاروبار حیات کو جاری رکھنے کا حکم بھی اسلام نے ہی دیا ہے ۔ کیوں کہ اسے ترک کرکے ہمہ وقت عبادت اور ذکر و فکر میں مشغول رہنا ’’رہبانیت‘‘ ہے ۔ جسے نظام حیات کے طور پر اپنانے کی اجازت اسلام نہیں دیتا ۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عبادت ہے جس کو انسانی تخلیق اور اس کی حیات کا مقصد اور نصب العین قرار دیا گیا ہے جو جملہ عبادات اور معاملات حیات میں یکساں طور پر انسان کے پیش نظر رہ سکے ۔ یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اصل نصب العین اور مقصد وہ ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہ ہونے پائے۔ جو لمحہ مقصد سے بے توجہی اور بے التفاتی میں بسر ہو، گناہ ہوتا ہے اور بارگاہ ربوبیت میں ناپسندیدہ ۔ اگر عبادت سے مراد وہی تصور لیا جائے جو عام مذہبی ذہن میں راسخ ہے تو اس طرح انسانی زندگی کے جائز اور مشروع معاملات بھی تضاد کا شکار ہوجائیں گے۔ کیوں کہ بعض معاملات انسانی نصب العین کے مطابق ہوں گےا ور بعض اس کے خلاف۔
عبادت کا صحیح تصور :
اس الجھاؤ اور شبہ کو رفع کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ عبادت اور بندگی کا وہ جامع اور وسیع تصور ذہن نشین کر لیا جائے جو انسانی زندگی کے جملہ معاملات پر حاوی ہے اور جس کا تعارف خود قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کرایا ہے ۔
نیکی (یعنی اصل عبادت) یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ اصل نیکی (عبادت) یہ ہے کہ اللہ پر ، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں (حاجتمندوں)اور غلاموں کو آزاد کرنے پرخرچ کرے ۔ اور نماز قائم کرے اور زکاۃ دے ، جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، اور مصائب و آلام میں ، مشکلات و شدائد اور جنگ و جدال میں صبر کرے ۔ ایسے ہی لوگ سچے اور متقی و پرہیزگار ہیں۔
(قرآن مجید، سورہ بقرہ 2، آیت : 177)
اسلام کا تصور بندگی :
اس آیت مبارکہ میں عبادت اور نیکی کا اصل تصور بیان کرنے سے پہلے مزعومہ تصور کی نفی کی گئی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ تعریف جامع بھی اور مانع بھی۔ عوام کے ذہنوں میں عام طور پر محدود تصور راسخ ہوتا ہے اور وہ نماز ہی طرح کی عبادت کو عبادت، نیکی اور بندگی کہتے ہیں۔ زندگی کے باقی معاملات دنیا داری تصور کیے جاتے ہیں۔ قرآن نے سب سے پہلے اس راہبانہ تصور عبادت کو رد کر دیا کہ اگر کوئی شخص مشرق و مغرب کی جانب یعنی قبلہ رو ہوکر نماز وغیرہ پڑھنے کو ہی نیکی اور اصل عبادت سمجھتا ہے تو یہ غلط ہے۔ اسلام کے نزدیک عبادت اور نیکی کا مفہوم اس قدر محدود نہیں کہ جس کا بقیہ عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ قرآنی تصور عبادت اور اسلامی مفہوم تقویٰ اس قدر وسیع ہےجو انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے ۔ اسلام کا تصور بندگی یہ ہے کہ انسانی زندگی درج ذیل خصائص کی جامع ہو۔
·صحت عقائد : جس میں اللہ تعالیٰ، آخرت، فرشتو ں، آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر ایمان لانا ضروری ہے ۔
·حب الہی : جس کا ثبوت خلق خدا کے حق میں نفع بخشی، فیض رسانی اور مالی ایثار و قربانی کے ذریعہ فراہم کیا جائے۔
·مالی ایثار : اپنے وسائل دولت، مستحق رشتہ داروں، یتامی و مساکین ، غرباء و فقراء اور غلامی و محکومی کی زنجیروں میں جکڑےہوئے انسانوں کی آزادی ، معاشی بحالی اور آسودگی پر خرچ کیے جائیں۔
·صحت اعمال : نماز اور روزہ وغیرہ کے احکام کی پابندی کی جائے۔
·ایفائے عہد: انسان جو عہد اور فیصلہ کرے عزم و ہمت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہے۔
·صبر و تحمل : مصائب و شدائد کے تمام غیر معمولی حالات میں بھی صبر و تحمل اور عزم و استقلال کے ساتھ قائم رہے۔
·راہ خدا میں جد و جہد : حق کی خاطر کسی قسم کی مخالفت و مخاصمت سے نہ گھبرائے خواہ وہ کھلی جنگ کی صورت ہی کیوں نہ ہو۔
مذکورہ بالا خصائص اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام اجزاء کا مجموعہ ’’نیکی اور اصل عبادت ‘‘ہے۔گویا اصل عبادت اور بندگی ایک کل کا نام ہے اور زندگی کے جملہ معاملات مذہبی ہوں یا دنیوی اس کل Totalityکے مختلف اجزاء ہیں۔جس طرح کسی ایک جزء کوالگ کرکے اسے کل کا نام نہیں دیاجا سکتا ۔ اسی طرح زندگی کے کسی ایک پہلو کو دوسرے سے لا تعلق کرکے کامل بندگی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا کامل عبادت اور بندگی یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اس طرح بسر کرے جیسے اس کے خالق و مالک کی رضا ہو۔ اگر انسان نے کچھ معاملات رضائے الہی کے مطابق نبھائے اور کچھ اس کے خلاف تو اسے اخلاقی کمال یا کامل بندگی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا۔
اخلاقی کمال کی اعلیٰ ترین صورت رضائے الہی کا حصول ہے :
انسان کی زندگی کا نصب العین اخلاقی کمال ہے اور اخلاقی کمال عبارت ہے کامل بندگی سے ، جس کی اعلیٰ ترین صورت ’’رضائے الہی‘‘ کا حصول ہے ۔ اس لحاظ سے نتیجۃً انسان کی زندگی کا اصل نصب العین اور مقصد رضائے الہی قرار پایا، یا یوں سمجھ لیجیے کہ انسان کا مقصد حیات ’’انسان مرتضی‘‘ یعنی ایسا انسان بننا ہے جس پر اس کا رب راضی ہو۔
یہ نتیجہ مذکورہ بالا آیت سے ہی نکلتا ہے جس میں خدا اور رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے حکم کے بعد فرمایا گیا :
اور انسان اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں ، یتامی اور دیگر مستحق افرد پر خرچ کرے۔
یہاں ایمان کے بعد ایثار ور عمل کی تلقین کی گئی ہے ۔ لیکن ایثار و عمل کے لیے جس چیز کو بطور محرک بیان کیا گیا ہے وہ’ حب الہی‘ ہے ۔ یہ حقیقت بالکل واضح اور واشگاف ہے کہ کسی کی محبت میں ایثار و قربانی ، صبر آزما جد و جہد اور مصائب و شدائد کا خوشی سے برداشت کرنا محض محبوب کی رضا کی خاطر ہوتا ہے ۔ آخر اور کونسا مقصد اس صبر آزما زندگی میں کا فرما ہو سکتا ہے ۔ اگر محبوب کو راضی کرنا پیش نظر نہ ہو تو کوئی کیوں کر تکالیف کو دعوت دے گااور اپنی جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہوگا۔
اس لیے خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اصل زندگی اور روح ِ عبادت جو انسانی زندگی کا نصب العین اور مقصد وحید ہے ۔ وہ ہر حال میں رضائے الہی کا حصول ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
قرآن اور رضائے الہی کا نصب العین
انسانی زندگی کی خلق و بقا کا سب سے بڑا مقصد ہی رضائے الہی کا حاصل کرنا ہے ۔ یہی وہ نعمت کبریٰ ہے جس کا کوئی بدل کارخانہ حیات میں میسر نہیں آتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اور اللہ کی طرف سے رضا (کا حاصل ہوجانا ) سب سے بڑی نعمت ہے ۔
(قرآن مجید، سورہ توبہ 9، آیت : 72)
ایک مقام پر جد و جہد کرنے والوں کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی جاتی ہے :
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار اور وطن کو خیر باد کہا اور اللہ کے راستے میں اپنے و جان و مال سے تگ و دوکی، پس اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی کامیاب و کامران ہیں۔ ان کا رب انہیں (ان کی قربانیوں کے بدلے میں) اپنی رحمت کی اور اپنی رضا کی خوشخبری سناتا ہے ۔
(قرآن مجید، سورہ توبہ 9، آیت : 21-20)
اسی طرح رضائے الہی کی خاطر زندگی کی مشقتیں برداشت کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن یوں گویا ہوتا ہے ۔
جو لوگ اپنے گھروں سےنکال دیے گئے اور مال و جائداد سے محروم کردیے گئے ہیں (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی خاطر اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرنے کی خاطر پس وہی لوگ سچے ہیں۔
(قرآن مجید، سورہ حشر 59، آیت :۔۔)
جو لوگ رضائے الہی کو اپنا مقصد اور نصب العین تصور کرتے ہیں اور اس کے حصول کی خاطر دنیوی منافع سے خود کو محروم کر لینا بھی گواراکر لیتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ سچائی کی راہ پر گامزن قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ مزدہ جانفزا سناتا ہے کہ’’ تم لوگ حقیقت میں خدا اور اس کے رسول کے مددگار ہو۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد رخداوندی ہے :
اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان بیچ دیتے ہیں۔اور اللہ (ایسے) بندوں پر بڑا مہربان ہے ۔
(قرآن مجید، سورہ بقرہ 2، آیت : 207)
ایک اور مقام ملاحظہ ہو:
اور جوشخص ایسے کام اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے تو ہم اسے بہت بڑا اجر عطا کریں گے۔
(قرآن مجید، سورہ نساء 4، آیت : 114)
قرآن مجید نے رضائے الہی کو ایک اور مقام پر سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :
اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ، یقیناً یہ بڑی کامیابی ہے۔
(قرآن مجید، سورہ مائدہ 5، آیت : 119)
انسان کی پوری زندگی عبادت پر مشتمل
جب رضائے الہی مقصد حیات بن کر انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوجائے تو اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، الغرض سارا کاروبار حیات ہی عبادت اور بندگی قرار پاتا ہے ۔ اس کا ایک ایک سانس اور ایک ایک لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔ وہ شخص رضائے الہی کی خاطر شادی کرتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے ، بیوی بچوں سے شفقت و محبت کرتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے ۔ مشاغل حیات میں مصروف ہوتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ حیات انسانی کی ہر حرکت و سکون سراسر عبادت و بندگی میں بدل جاتی ہے ۔ اس تصور کو قرآن یوں واضح کرتا ہے ۔
ایسے لوگ بھی ہیں کہ تجارت اور خرید و فروخت بھی انہیں یاد الہی سے غافل نہیں ہونے دیتی۔
(قرآن مجید، سورہ نور 24، آیت : 37)
اہل رضا کی معیت اختیار کرو
اسی طرح جن لوگوں نے رضائے الہی کو مقصد حیات بناکر اپنے صبح و شام اسی رنگ میں ڈھال لیے ہیں۔ قرآن ان سے بھی مخصوص لگاؤ اور تعلق قائم رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔ چنانچہ فرمان الہی ہے :
اپنی طبیعت ان لوگوں سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ،اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ (تم ہر وقت ان سے اس طرح قریب رہو کہ )تمہاری آنکھیں ان سے ہٹ کر کہیں اور پھرنے نہ پائیں۔
(قرآن مجید، سورہ کہف 18، آیت : 2)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے :
اور ان لوگوں کو خود سے ردور نہ کرو جو صبحو شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 52)
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اہل صدق (سچے لوگوں )کے ساتھ ہوجاؤ۔
(قرآن مجید،سورہ توبہ 9، آیت : 119)
یقینا ًصدق والے وہی لوگ ہیں جو خلوص دل سے رضائے الہی کے طلبگار ہیں اور جنہیں نعمت رضوان نصیب ہو چکی ہے ۔
اہل رضا کا دیدار بھی عبادت ہے
جس کی اپنی زندی کا ہر لمحہ خدا کی یاد اور اس کی رضا کے لیے وقف ہو ۔ا س شخص کو دیکھنا بھی خود یاد الہی بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں جو تم میں سے افضل ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا، جی ہاں یا رسول اللہ! تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تم مین سے افضل ترین وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھتے ہی خدا یاد آجائے۔
اہل رضا محبوب خدا ہوتے ہیں
رضائے الہی کو اپنا مقصود حقیقی سمجھنے والے جب اس مقصود کو عملاً پا لیتے ہیں تو پھر وہ خود بھی خدا کے محبوب و مرتضی ہوجاتے ہیں۔ خود رب ذوالجلال انہیں اپنا مطلوب و مقصود بنا لیتا ہے ۔ قرآن حکیم اس حقیقت کی تائید یوں کرتا ہے :
(اے محبوب !) فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری غلامی اختیار کرو (نتیجۃً) اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔
اس آیت نے صراحت کے ساتھ یہ امر واضح کر دیا کہ رضائے الہی کی طلب بندے کو اطاعت و اتباع رسول اللہ ﷺ کے بعد خود محبوب و مرتضی بنا دیتی ہے ۔ انسان کی جہد حیات کا آغاز تو حب الہی اور رضائے الہی کے حصول کی کاوش سے ہوتا ہے ۔ جس میں صداقت کی شرط اتباع رسول ﷺ ہے ۔ ورنہ حب الہی اور ضائے الہی کا دعوی کامل متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اتباع رسول جس کا محرک محبت ہو، کا نتیجہ یہ ہے کہ بندہ محب سے محبوب طالب سے مطلوب اور متلاشی رضا سے خود مرتضی و مجتبی بن جاتا ہے ۔
اہل رضا سے دنیا کی ہر چیز محبت کرتی ہے
قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے عنقریب رحمٰن ان کیلئے (مخلوق کے دل میں )محبت پیدا کر دے گا۔
(قرآن مجید، سورہ مریم 19، آیت : 96)
مذکورہ آیت مبارکہ میں ایک بہت اہم خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا۔ اور لوگ اس کی طرف جوق درجوق کھنچنے لگتے ہیں۔ اور یہ محبت نہ صرف انسانی حدوں تک محدود ہوتی ہے بلکہ چرند و پرند، درند و حیوانات سبھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
کیونکہ ایسا بندہ اپنے مقصد حیات کو مکمل حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ اب اس کے کردار و عمل سے ایسے امور کا ظہور ہوتا ہے جو مقصدیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اور اس کی ہر ہر ادا اخلاق الٰہیہ کا آئینہ ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک مقام پر حضرت ابو ہریرہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتےہیں :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبرئیل کو ندا کرکے فرماتا ہے میں نے فلاں شخص کو محبوب و مرتضی بنالیا ہے تو بھی اسے محبت کر، پھر جبرئیل اس کو محبواب بنالیتے ہیں پھر وہ آسمانوں میں ندا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں شخص کو اپنا محبوب بنالیا ہے ۔ تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے بھی اس کو محبوب بنالیتے ہیں پھر اس شخص کے لیے اہل زمین کے دلوں میں مقبولیت اتاردی جاتی ہے ۔ یعنی اہل زمین بھی حکم الہی سے اسے اپنا محبوب و مقصود بنا لیتے ہیں۔
اہل رضا ہی راہ حق پر ہیں :
مذکورہ بالا تمام آیات اور احادیث میں مختلف صورتوں سے ایک ہی حقیقت پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے اہل رضا سے تعلق ، معیت ، رفاقت اور وابستگی اختیار کرنا ۔ کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے مقصود زندگی کو پاچکے ہیں۔ لہذا مقصد حیات اور نصب العین کی صحیح ہدایت بھی ان ہی کے راستے سے میسر آ سکتی ہے ۔ یہ لوگ چونکہ صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ ہیں اس لیے ہدایت کا اولین شعور بھی ان ہی کے راستے سے نصیبب ہوتا ہے ۔
قرآن حکیم اس حقیقت کی تائید یوں فرماتا ہے :
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک روشن کتاب ، اس سے اللہ اسی کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جس نے اس کی رضا کو اپنا لیا اور وہ انہیں اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی (یعنی کفرو جہالت سے ایمان و ہدایت)کی طرف لے جاتا ہے اور وہ انہیں سیدھی راہ کی طرف ان کی رہنمائی فرماتا ہے ۔
(قرآن مجید، سورہ مائدہ 5، آیت : 16-15)
اس آیت نے مذکورہ بحث کے نتیجے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ جو لوگ رضائے الہی کے نصب العین کے طلب گار ہیں حقیقت میں وہی راہ ہدایت پر ہیں اور انہی کے سینے شعور مقصدیت کے اجالے سے منور ہیں، انہیں کا راستہ صراط مستقیم ہے اور انہی کو منزل تک رسائی کی حتمی ضمانت نصیب ہو چکی ہے ۔
خلاصہ کلام
معلوم ہوا کہ مقصد انسان عبادت الٰہی ہے اور عبادت الہی عبارت ہے رضائے الہی سے،گویا انسان کا مقصد حیات بڑا مبارک، عظیم اور اہم ہے اور اسی تصور عبادت کی بنیاد پر ایک انسان کو تقرب الی اللہ میسر ہوتا ہے۔انسانی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ کی رضا کا حصول ہوجائے اور اس کے نتیجے میں انسان حسنات دنیا اور حسنات آخرت سے فیض یاب ہوسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ معلوم ہوکہ اللہ کی رضا کے لیے کیسی فکر، کیسا جذبہ اور کیا عمل درکار ہے۔ عقیدے کی درستی،جذبات و احساسات کی ہدایت اور ان کے نتیجے میں اعمال صالحہ کی سعی وجہد انسان سے مطلوب ہے۔جہاں تک فکری رہنمائی کا تعلق ہے ،جس کے تحت عقیدے اور جذبات و احساسات آجاتے ہیں، اس کا وافر انتظام اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود ہے۔ در اصل انسان کی فکر ی ہدایت کا مکمل خزینہ کتاب وسنت میں موجود ہے۔ کتاب و سنت کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع کرنے کے علاوہ اپنی تمام فکری رہنمائی یعنی ہدایت کے لیے انسان کو کچھ اور سعی کرنے کی حاجت نہیں ہے۔جہاں تک زندگی کے عملی مسائل کا تعلق ہے ، کتاب و سنت میں اس کے لیے ضروری ہدایات فراہم کردی گئی ہیں، جن کی بنیاد پر انسان قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل تلاش کرسکتا ہے۔
مگر جب انسان اپنے مقصد اصلی کو چھوڑ دیتا ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے تو وہ اپنے مقاصد سے بہت دور ہو جاتا ہے۔معاشرتی طور پر انسان چند در چند گناہوں میں ملوث ہوتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی، زنا، لواطت، نافرمانی، ترک اوامر، ارتکاب معاصی، لوگوں کا حق غصب کرنا، ترک نماز، زکوٰۃ، روزہ، کمزوروں کا حق دبانا، بڑوں کی بے ادبی کرنا، مرسلین عظام کے مناصب ومراتب کو گرانا، اللہ تعالی کی ذات کی معرفت سے روگردانی کرنا، عذاب الٰہی سے بے خوف ہو جانا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جو یکسر مقصد حیات کے خلاف ہیں۔
اب سوچنے کا مقام ہے کہ جن مقاصدکے لیے اَللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ بلند رتبہ دیا ، اشرف المخلوقات کے طغرائے امتیاز سے شرف بخشا اور انسان کو جملہ مخلوقات میں اکمل و اتم بناکر دنیا بھیجا پھر اگر کوئی فرد بشر ان مقاصد کو نظر انداز کرکے معیار انسانیت سے خود کو گرا دے وہ کتنی عظیم سزا پانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ آج معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان خود کو پہچان نہیں رہا ہے۔ جس نے خود کو پہچانا تو وہ دنیا کا ایک انمٹ کردار بن گیا۔ اس ضمن میں صحابہ کرام اور تابعین عظام اور اس کے ساتھ صوفیائے اعلام کا جو سلسلۃ الذہب ہے وہ اس بات پر شاہد ہے کہ ان پاکیزہ افراد نے بہر حال اپنے مقصد حیات کو سمجھا، جانا اور اس پر عمل کیا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment