Kya abu hanifa muqallid the

کیا ابو حنیفہ مقلد تھے

ِإن الھدایۃ کالقرآن قد نسخت من قبلھا فی الشرع من کتب  (مقدمہ الھدایۃ )

ترجمہ: بالیقین ھدایہ قرآن کریم کی مانند ہے اور اس کے سوا شریعت کی تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں ۔

فلعنۃ ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ رحمہ اللہ  (رد المحتار ج۱ص۶۳)

ترجمہ : اس شخص پر ریت کے ذروں کے برابر ہمارے رب کی طرف سے لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کر دے۔

آئیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کن کن حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رد کیا ہے جن پر احناف رات دن لعنت بھیجنے پر تلے ہوئے ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ)،امام محمد (۱۸۹ھ)، امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ)، اما م ابو یوسف رحمہ اللہ (۲۰۸ھ)، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۲۴۱ھ)، امام بخاری رحمہ اللہ (۲۵۶ھ)، امام نسائی (۳۰۳ھ)، امام طحاوی رحمہ اللہ (۳۲۱ھ)، امام ابن حزم (۴۵۶ھ)، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)، امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)، امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ)

اور بھی بے شمار حضرات نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کئی اقوال کو رد کیا ہے قارئین کرام سلف صالحین پر لعنت بھیجنا ہی احناف کی بزرگی اور دینداری ہے۔

جب کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے

کہ جب میری امت میں پندرہ خصلتیں پائی جائیں گی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا اور ان میں سے ایک (اذا لعن آخر ھذہ الأمۃ أولھا) (ترمذی رقم حدیث۲۲۱۰، ابن ماجہ) جب اس امت کے آخر میں آنے والے لوگ پہلوں پر لعنت بھیجنے لگیں گے۔

ایک دوسری جگہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

(ومن لعن مؤمنا فھو کقتلہ) (بخاری کتاب الأدب باب ۴۴ رقم الحدیث۶۰۴۷)

جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی گویا کہ اس نے اس کو قتل کر دیا۔
’’ فَاسْئَلُوا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ‘‘

اسے تقلید ثابت ہوتی ہے تو آئیے دیکھیں اس آیت کے بارے میں حضرات احناف کا کیا خیال ہے۔

’’ فَاِنْ کُنْت فِیْ شَکِّ مِّمَّا أنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقُرَأوْنَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ‘‘ (یونس۔۹۴)

ترجمہ: اے محمد ﷺ جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس میں اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہو تو آپ پوچھ لیجئے ان لوگوں سے جو کتاب ( تورات اور انجیل ) پڑھتے ہیں۔

کیا یہاں پر بھی احناف یہی کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے یہود و نصریٰ کی تقلید کا حکم کیا ہے اگر ایسا نہیں بلکہ یقینا ایسا نہیں تو

(فاسئل) کا معنی احناف (تقلید) نہیں لے سکتے اور ہر گز نہیں لے سکیں گے۔ القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن کی آیت ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے تو پتہ چلا کہ یہاں پر (فَاسْئَلُوْا) کا معنی تحقیق ہے نہ کہ تقلید جس کا دعویٰ احناف اور دیگر مقلدین بھی کرتے ہیں ۔

اور یہ معنی ہم نے اپنی طرف سے نہیں گھڑا۔آیت کا ماقبل بتا رہا ہے۔

وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ِالاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَاسْئَلُوْا أھْلَ الذِّکْرِ اِنْ ُکُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ (النحل ۴۳)

ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے مردوں کے علاوہ کسی کو نبی بنا کر نہیںبھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے رہیں پس اس چیز کا اگر تم کو علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو یعنی تحقیق کر لو۔

اور اگر یہاں پر (فاسئلوا) سے مراد تقلید لیں گے تو پھر معنی یہ بنے گا کہ اگر محمد ﷺ کے نبی ہونے میں تمہیں کوئی شک ہو تو اہل علم یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی تقلیدکرو۔حالانکہ آیت کا یہ مطلب کسی بھی مفسر نے نہیں لیا ۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو بھی قرآن کریم کی موجودگی میں تورات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللھم اھد قومي فانھم لا یعلمون۔

وقال ابن عباس رضی اﷲ عنہ یوشک ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول! قال رسول اللہ ﷺ وتقولون قال ابو بکر و عمر (زادالمعاد ج ۲، ص۱۹۵)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔

قال عبد اﷲ بن عمر: أرأیت ان کان أبی نھیٰ عنھا وصنعھا رسول اللہ ﷺ أأمرأبي یتبع أم أمر رسول ﷺ فقال الرجل بل أمر رسول اللہ فقال: لقد صنعھا رسول ﷺ (رواہ الترمذی فی باب ماجاء فی التمتع رقم الحدیث ۸۲۴)

ترجمہ : تومجھے بتا اگر اس کام سے میرے والد نے منع کیا ہو اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو کیا ہو بتا کس کی اتباع کرنی چاہئے؟ میرے والد کی یا اللہ کے رسول ﷺ کی ؟ تو اس نے کہا بیشک اللہ کے رسول ﷺکی اتباع کی جائے گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر سن لے اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو کیا ہے۔

  اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔

ان کی تقسیم عجیب ہے امام کی تقلید کو تو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور جو صحابہ کرام علم اور تقویٰ میں امام سے کئی گنا بڑھ کر ہیں ان کی تقلید سے عوام کو منع کرتے ہیں۔’’ تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی‘‘ یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔

ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں ۔

ان اﷲ لم یکلف أحداً أن یکون حنفیا أو مالکیا أو شافعیا أو حنبلیا بل کلفھم أن یعملوا بالسنۃ (شرح عین العلم ص ۳۲۶)

للہ تعالیٰ نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ ـحنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے کا مکلف بنایا ہے۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کیا خود اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔

سئل أبو حنیفۃ إذا قلت قولا وکتاب اللہ یخالفہ: قال أترکوا قولی بکتاب اللہ قال إذا قلت قولا وحدیث رسول اللہ ﷺ یخالفہ قال اترکوا قولی بخبر الرسول ( عقد الجید ص۴۵)

اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگرآپ کا کوئی قول اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہو تو کیا کریں فرمایا میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی کتاب کو لے لینا پھر کہا اگر آپ کا قول اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے خلاف ہو تو ؟ فرمایا اسی طرح میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فرمان کو لے لینا۔

اب دیکھتے *ہیں _کہ ~امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ~_*خود بھی کسی کی تقلید کرتے تھے یا نہیں *~_*اني لا اقلد التابعی لأنھم رجال ونحن رجال ولا یصح تقلیدہم ( نور الأنوار
*_~*
_~*ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتاکیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انکی تقلید صحیح نہیں ہے۔
*~_
اسی طرح علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:۔

إذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عن ابي حنیفۃ أنہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی ۔ (شرح عقود رسم المفتی لا بن عابدین ص۱۹)

جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث ہی پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو ـحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہو گا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی ـحنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہو گا۔

یہ تمام باتیں دلائل کے ساتھ پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی مقلد کو تسلی نہ ہو اور اپنی اس تقلید سے توبہ نہ کرے تو پھر ہم اس کے بارے میں وہی کہیں گے جو کچھ علامہ عبد الحیی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

قد تعصبوا فی الحنفیۃ تعصبا شدیدا ً والتزموا بما فی الفتاوی التزاماً شدیداً وان وجدو ا حدیثا صحیحا أو أثرا صریحاً علی خلافہ وزعموا أنہ لو کان ھذا الحدیث صحیحا لأخذ صاحب المذھب ولم یحکم بخلافہ وھذا جھل منھم (النفع الکبیر ص۱۴۵)

احناف کی ایک جماعت سخت تعصب میں مبتلاء ہے اور سختی سے کتب فتاویٰ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور اگر ان لوگوں کو کوئی صحیح حدیث یا کوئی صریح اثر مل جاتا ہے جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو امام صاحب ضرور اس کے مطابق فتویٰ دیتے اور اس کے خلاف فیصلہ نہ دیتے اور یہ ان لوگوں کی جہالت ہے۔

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو یہ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں ۔الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)

ترجمہ: علماء شوافع مثلاً قفال، شیخ ابن علی اور قاضی حسین رحمہ اللہ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے ۔( کہ وہ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد نہیں تھے) مثلاً ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کیونکہ انہوں نے اکثر مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کی ہے۔

اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔

قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)

*ترجمہ: اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔*

No comments:

Post a Comment