*🌹آج کا سبق، ترجمه و تفسير قرآن مجيد🌹*
*((سورة البقرة مدنية: آیت نمبر: 267))*
🌹أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.🌹
🌹بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.🌹
🌹📖 يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ.
اردو:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں اور اس میں سے گندی چیز کا ارادہ نہ کرو، جسے تم خرچ کرتے ہو، حالانکہ تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں، مگر یہ کہ اس کے بارے میں آنکھیں بند کرلو اور جان لو کہ بیشک اللہ بڑا بےپروا، بےحد خوبیوں والا ہے.
English:
O you who believe! Give of the good things you have earned, and from what We have produced for you from the earth. And do not pick the inferior things to give away, when you yourselves would not accept it except with eyes closed. And know that Allah is Sufficient and Praiseworthy.
*🥀تفسیر القرآن الكريم🥀*
🖋 فضيلة الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد (بھٹوی) حفظه الله تعالى
✍ "اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ ۔۔۔ ": اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریا کاری، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کرکے سمجھایا ہے.
✍ اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے، اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی. سيدنا براء بن عازب (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں اتری، ہم کھجوروں والے تھے تو ہر آدمی اپنے درختوں میں سے زیادہ یا کم درختوں کے مطابق لے کر آتا تھا، کوئی آدمی ایک خوشہ اور کوئی دو خوشے لا کر مسجد میں لٹکا دیتا. اہل صفہ کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ خوشے کے پاس آ کر اپنے عصا سے ضرب لگاتا تو اس میں سے نیم پختہ اور پختہ کھجوریں گر پڑتیں اور وہ کھا لیتا. کچھ لوگ جنھیں نیکی میں رغبت نہ تھی، وہ نکمّے اور ردی خوشے لے آتے اور ایسے خوشے بھی جو ٹوٹے ہوئے ہوتے اور انھیں لٹکا دیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔"
مطلب یہ کہ اگر تم میں سے کسی کو اس جیسا تحفہ دیا جائے جو اس نے دیا ہے تو وہ اسے کسی صورت نہ لے، مگر چشم پوشی اور حیا کی وجہ سے.
سيدنا براء (رضي الله عنه) فرماتے ہیں، اس کے بعد ہم میں سے ہر ایک اپنی سب سے عمدہ چیز لے کر آتا. [ترمذی،
التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ: ٢٩٨٧ و صححه الألباني]
✍ گو شان نزول میں نفل صدقے کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوٰۃ اور نفل صدقے دونوں کو شامل ہے.
سيدنا سہل (رضي الله عنه) فرماتے ہیں:
”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقے میں ”جُعُرُور“ اور ”لَون الحُبَیْق“ (دو ردی قسم کی کھجوریں) وصول کرنے سے منع فرمایا“. [أبوداوٗد، الزکوٰۃ، باب ما لا یجوز من الثمرۃ ۔۔: ١٦٠٧، و صححه الألباني]
✍ "وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ": میں ”لَسْتُمْ“ نفی کی تاکید ”بِاٰخِذِيْهِ“ کی باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں“ کیا گیا ہے.
✍ "اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔": لفظ "طیب" جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو، پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال طریقے سے کمایا ہوا مال خرچ کرو، خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا.
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ قبول نہیں کرتا مگر پاک کو“. [مسلم، الزکٰوۃ، باب قبول الصدقة ۔۔: ١٠١٥، عن أبی هریرۃ (رضي الله عنه)]
✍ "مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ": انسانی کمائی کے بڑے ذرائع چار ہیں: زراعت، صنعت، تجارت اور ملازمت. کمائی جس طریقے سے بھی ہو اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا پڑے گی. بعض لوگ کہتے ہیں مال تجارت میں زکوٰۃ نہیں، امام بخاری (رحمه الله تعالى) نے اس آیت سے استدلال کر کے ان کا رد فرمایا ہے. [بخاری، الزکوٰۃ، باب صدقة الکسب والتجارۃ، قبل ح: ١٤٤٥]
✍ البتہ زمین سے حاصل ہونے والی فصل کا عشر فصل اٹھاتے ہی ادا کرنا ہوگا، اگر نصاب کو پہنچ جائے، جو 600 کلو گرام ہے. اس آیت میں
"وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ"
سے مراد فصل پر عشر یا نصف عشر ہے. اگر پانی زمین سے کھینچ کر لگایا جائے تو 5 فیصد، اگر بارانی یا نہری ہو تو 10 فیصد.
تفصیل کے لیے دیکھیے: میرا رسالہ
”احکام زکوٰۃ و عشر“.
✍ "غَنِىٌّ حَمِيْدٌ": یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے مال کی ضرورت نہیں، وہ تو سب سے زیادہ بےپروا اور ہر تعریف کے لائق ہے، یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے.
والله تعالى أعلم.💐💎
No comments:
Post a Comment