*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
تیسری قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
*شیعوں میں مختلف فرقے*
*محترم قارئین!* اب تک آپ کے سامنے جو تفصیل اختصار کے ساتھ پیش کی گئی وہ شیعیت کے آغاز اور اس کے بانی کے تعلق سے تھی، چونکہ یہ دعوت و تحریک خفیہ طور پر اور زمینی انداز میں چلائی جا رہی تھی اس لئے اس سے متاثر ہونے والے سب ایک ہی خیال اور عقیدے کے نہیں تھے، اس کے داعیان جس سے جو بات اور جتنی بات کہنا مناسب سمجھتے وہی کہتے اور اگر وہ قبول کر لیتا تو بس وہی اس کا عقیدہ بن جاتا... اسی وجہ سے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت یا ان کے اندر اللہ کی روح کے حلول کے قائل تھے،کچھ ایسے بھی تھے جو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل و اعلی اور نبوت و رسالت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام کی جانب سے غلطی کے قائل تھے... کچھ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد امام و امیر نیز خلیفہ سمجھتے تھے اور اسی بنا پر وہ خلفاء ثلاثہ (ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کو اور ان تمام صحابہ کرام کو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان حضرات کو خلیفہ مانا اور دل سے ان کا ساتھ دیا... ان سب کو معاذ اللہ یہ لوگ کافر و منافق یا کم از کم غاصب و ظالم اور غدار کہتے تھے... ان سب کے علاوہ بھی اس طرح کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے گروہ تھے... ان سب میں مشترک بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں "غلو" تھا اور اس غلو کے درجات ہر ایک کے نزدیک مختلف تھے... ابتدائی دور میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز الگ الگ فرقے نہیں بنے تھے... بعد میں مختلف اسباب کی وجہ سے ان کے اندر مختلف فرقے بنتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کی تعداد ستّر سے بھی زیادہ ہو گئی... جن کی کسی قدر تفصیل آپ "ابو الفتح محمد بن عبد الکریم الشهرستاني" کی کتاب "الملل و النحل" کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں.... ان فرقوں میں سے بہت سے تو وہ ہیں جن کا غالباً اب اس دنیا میں کہیں وجود نہیں، تاریخ کی کتابوں کے اوراق میں ہی ان کا نام و نشان باقی رہ گیا ہے، لیکن ان کے چند فرقے ہمارے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، ان میں تعداد کے لحاظ سے اور بعض دوسرے ناحیوں سے بھی "اثنا عشریہ" کو امتیاز اور اہمیت حاصل ہے... آگے ہم ان شاء اللہ اسی فرقے کے عقائد اور "ائمہ معصومین" کے حوالے سے ان کی خود ساختہ باتیں پیش کرنے کی کوشش کریں گے...
*شیعیت (اثنا عشریہ) اور اس کی بنیاد "مسئلہ امامت"*
شیعوں کا ایمان ہے کہ جس طرح اللہ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس کی طرف سے انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث کئے گئے جو "معصوم" ہوتے تھے اور ان کی بعثت سے ہی بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوتی تھی اور وہ ثواب یا عذاب کے مستحق ہوتے تھے بالکل اسی طرح اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے بندوں کی ہدایت کے لئے "امامت" کا سلسلہ قائم کر دیا ہے اور قیامت تک کے لئے بارہ امام نامزد کر دیئے ہیں، بارہویں امام پر دنیا کا خاتمہ اور قیامت یقینی ہے... یہ بارہ امام انبیاء علیہم السلام ہی کی طرح معصوم ہیں اور مقام و مرتبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے افضل و برتر اور بالاتر ہیں.... فنعوذ باللہ من الشیطان الرجیم..... ان اماموں کی اس امامت کو ماننا اور ان پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت کو ماننا اور ان پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے....
*بارہ اماموں کے اسماء:*
1- حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
2- حسن بن علی رضی اللہ عنہ
3- حسین بن علی رضی اللہ عنہ
4- علی بن حسین زین العابدین
5- محمد بن علی باقر
6- جعفر بن محمد صادق
7- موسی بن جعفر کاظم
8- علی بن موسی رضا
9- محمدبن علی تقی
10- علی بن محمد نقی
11- حسن بن علی عسکری
12- محمد بن حسن مہدی موعود منتظر (شیعی عقیدے کے مطابق اب سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو سال پہلے 255 یا 256 ھجری میں محمد بن حسن مہدی پیدا ہو کر 4 یا 5 سال کی عمر میں معجزانہ طور پر غائب ہو گئے اور اب تک زندہ ایک غار میں روپوش ہیں..... ان پر امامت کا سلسلہ ختم ہو گیا.... لیکن یاد رہے کہ آخری امام کے تعلق سے یہ شیعوں کا عقیدہ ہے... تاریخی شہادت اور تحقیقی بات یہ ہے کہ حسن بن علی عسکری کا کوئی بیٹا پیدا ہی نہیں ہوا پھر محمد بن حسن مہدی موعود منتظر کا وجود کہاں سے؟..........................
(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات اور "ائمہ معصومین" کے ارشادات"......
*+919022045597*
No comments:
Post a Comment