شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں دسویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
دسویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
__________________

*محترم قارئین!* تقیہ کا معنی اور شیعوں کی نظر میں اس کے جائز بلکہ دین کا حصہ ہونے کی مختصر تفصیل اور اس پر شیعی کتب سے دلائل پچھلی قسط میں ہم نے بیان کیا تھا... آج کی قسط میں ہم ان شاء اللہ "تقیہ" کے تعلق سے کچھ مزید باتیں شیعوں کی زبانی رکھنے کی کوشش کریں گے...

*تقیہ کب اور کیسے؟*

شیعہ حضرات عوام الناس کے سامنے یہ باور کراتے ہیں کہ ہمارے یہاں تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب جان کا خطرہ ہو یا اس طرح کی کوئی شدید مجبوری ہو... لیکن ان کی کتابیں ان کی زبان کے برعکس کچھ اور کہتی ہیں وہ یہ کہ شیعی روایات میں ائمہ معصومین کے بکثرت ایسے واقعات اور روایات موجود ہیں کہ بغیر کسی مجبوری اور بغیر کسی ادنی خطرے کے بھی انہوں نے تقیہ کیا اور کھلی غلط بیانی کی یا اپنے عمل سے لوگوں کو دھوکہ اور فریب دیا.... آیئے نمونے کے طور پر ایک روایت کا تذکرہ کئے دیتے ہیں:

زرارہ نامی راوی امام باقر سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے فرمایا
"تقیہ ہر ضرورت کی چیز میں کیا جائے اور صاحبِ معاملہ اپنی ضرورت کے بارے میں زیادہ جانتا ہے (یعنی ضرورت وہ ہے جس کو صاحبِ معاملہ ضرورت سمجھے).... (اصول کافی 484)
اس روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شیعوں کا عوام الناس کے سامنے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے "جب جان جانے کا خطرہ ہو یا ایسی ہی کوئی شدید مجبوری ہو"... بلکہ ان کے مذہب میں تقیہ کے حوالے سے معاملہ ہر شخص کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے... جب بھی کوئی اپنی مصلحت یا مطلب سے تقیہ کی ضرورت سمجھے تقیہ کر سکتا ہے... یعنی یوں کہہ لیں کہ ان کی بنیادی تعلیمات میں جھوٹ بولنے کی ہر انسان کو کھلی آزادی ہے اور یہ سراسر اللہ کے حکم سے بغاوت ہے....

*تقیہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے*

گذشتہ تفصیل سے اگر آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے یہاں تقیہ جائز ہے تو ابھی ٹھہریں اور یہ حقیقت اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ شیعہ مذہب میں "تقیہ" صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری نیز دین و ایمان کا جزء ہے... ایک روایت ملاحظہ کریں...
امام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"اگر میں یہ کہوں کہ تقیہ نہ کرنے والا ایسے ہی گنہگار ہے جیسا کہ نماز کا ترک کرنے والا تو میری یہ بات صحیح اور سچ ہوگی اور مزید فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے"(من لا یحضرہ الفقيه بحوالہ تکملہ باقیات صالحات ص 216)

*محترم قارئین!* آپ دیکھیں کہ کتنی خوبصورتی سے تقیہ کو جائز ہی نہیں بلکہ واجب کہہ دیا گیا ہے اور اسی لئے آپ کو شیعی کتابوں میں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں ہی صورتوں میں تقیہ کی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی جس کے لئے آپ "الجامع الکافی" کے آخری حصہ "کتاب الروضة" کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات پوری طرح معلوم ہو جائے گی کہ یہ لوگ تقیہ یعنی جھوٹ بولنے کو واجب سمجھتے ہیں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں صورتوں میں بلکہ اللہ کی پناہ یہ دینی مسائل کے بیان میں بھی تقیہ سے کام لیتے ہیں جس کی وضاحت کے لئے میں صرف ایک روایت انہی کی کتاب سے ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں:
ابان بن تغلب نامی راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ
"میرے والد امام باقر بنو امیہ کے دور حکومت میں تقیہ کے طور پر فتوی دیتے تھے کہ باز یا شاہین جس پرندے کو شکار کریں اور وہ ذبح کرنے سے پہلے ہی مر جائے تو اس کا کھانا حلال ہے اور میں (امام جعفر صادق) اہل حکومت کے خوف سے اس مسئلہ میں تقیہ نہیں کرتا، میں فتوی دیتا ہوں کہ باز یا شاہین کا مارا ہوا پرندہ حرام ہے" (فروع کافی ج 2، جزء 2، ص 80)
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات کے یہ ائمہ تقیہ کے طور پر حرام کو حلال بھی بتلا دیتے ہیں اور یقیناً ان کے ماننے والے یعنی عوام ان کے فتوی کے مطابق اس حرام کو حلال سمجھ کر کھاتے تھے...... استغفر اللہ ولا حول ولا قوة الا بالله

بات اس سے آگے اور بڑھتی ہے تو یہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بھی ذلیل ترین تقیہ کی تہمت لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ فروع کافی جلد اول صفحہ ننانوے اور سو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اہل بیت خصوصاً حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوٰی کرنے والوں نے انہیں کس قدر پست کردار دکھایا ہے اور ان پر کس قدر ذلیل قسم کے تقیہ کی تہمت لگائی گئی ہے، اور صرف ان پر ہی نہیں بلکہ امام زین العابدین اور امام جعفر صادق پر بھی اسی طرح کی تہمتیں لگائی گئی ہیں.... معاذ اللہ

*نوٹ!* قارئین کے سامنے ائمہ کے حوالے سے جو روایات بیان کی جا رہی ہیں آپ ان سے یہ قطعی نہ سمجھیں کہ یہ سارے ائمہ واقعی ایسے تھے بلکہ ہمارا یقین ہونا چاہیئے کہ یہ سب اپنی جگہ محترم، مقدس اور پاکباز تھے لیکن شیعہ مذہب کے مصنفین اور راویوں نے ان کی طرف یہ خود ساختہ روایتیں منسوب کی ہیں، ان بزرگوں کا کردار اور ان کے دامن اس طرح کی منافقانہ بدکرداری، جھوٹ، دغا، فریب، دھوکہ اور تقیہ سے بالکل پاک ہے.....

(جاری ہے)
تقیہ کا باب مکمل ہوا لیکن باتیں ابھی باقی ہیں... اگلی قسط میں پڑھیں "شیعوں کا عقیدہ: نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے اور مزید ایک عقیدہ" عقیدہء رجعت"

*+919022045597*

No comments:

Post a Comment