تدوین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا

تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا
-------------------------------------
حدیث : كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: <استغفروا لأخيكم واسألوا له التثبيت فإن الآن يسأل> رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ.
ترجمہ :(عثمان ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ )نبیﷺ میت کے دفن سے فراغت کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے ، "اپنے بھائی کیلئے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا مانگو اس سے اب پوچھا جائے گا۔"
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

علامہ شوکانی لکھتے ہیں : اس میں دفن سے فراغت ہونے کے بعد میت کے لئے استغفار کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔

موسوعہ فقیہ میں لکھا ہواہے : استغفار قولی عبادت ہے اور یہ میت کے لئے صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تدفین کے بعد مستحب یہ ہے کہ ایک جماعت رک جائے اور میت کے لئے استغفار کرے اس لئے کہ ابھی منکرنکیرکے سوال کا وقت ہے ،،،،،،، اس بات کی جمہورفقہاء نے صراحت کی ہے ۔ انتہی ("الموسوعة الفقهية" (4/41)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : "الدعاء للميت بعد الدفن بالثبات والمغفرة سنة" یعنی دفن کے بعد میت کے لئے ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنا سنت ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : دفن کے بعد قبر پہ ٹھہرنا اور دعا کرنا یہ سنت ہے ۔ اور شیخ نے دلیل میں ابوداؤد کی مذکورہ بالا دلیل پیش کی ہے  "] لقاء الباب المفتوح " لقاء رقم (118[ )

٭رہی دعا میں ہاتھ اٹھانے کی بات تو اس میں امر واسع ہے اگر کوئی چاہے تو ہاتھ اٹھائے اور کوئی چاہے تو ہاتھ نہ اٹھائے ۔ احادیث سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے ۔
مسند ابی عوانہ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ صحیح سند کے ساتھ مروی وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو قبر ذي النجادين  میں دیکھا ، اس حدیث میں ہے ؛ جب آپ دفن سے فارغ ہوئے توآپ نے قبلے کی طرف منہ کیا اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔
اسے امام ابن حجر ؒ نے فتح الباری (11/120) "باب الدعاء مستقبل القبلة" میں ذکر کیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ دفن کے بعد میت کے لئے دعا کرنا اور ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ہاتھ اٹھاکر دعامانگنے کے قائلین میں سے شیخ ابن باز، علامہ نووی، شیخ ابن عثیمین اور شیخ عبدالمحسن عباد رحمہم اللہ ہیں ۔

No comments:

Post a Comment