سوال میں دو مسئلوں سے متعلق استفسار ہے۔ دو الگ الگ امور ہیں

السُّــــ❓ـــــؤَالُ : ☟

Asssalamualykum mohtaram o muazzaz sheikh ek hadees jisme yeah kehne se manaa kiyagayaa hai ke yeah Allah agar tu chahe to mujhe maaf karde aur hum Roze Marrah ki zindagi me jo Inshaallah kehte hain usmei Kya Faraq hai baraai meherbaani sahulath paane per apne ilm se istafaadah karen

الجَـــ ✅ ـــوَابُ : ☟

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

سوال میں دو مسئلوں سے متعلق استفسار ہے۔ دو الگ الگ امور ہیں۔ 

پہلے وہ حدیث معلوم کرلیں جس میں دورانِ دعاء (( اگر تو چاہے تو ۔۔۔ )) کے الفاظ سے منع کیا گیا ہے۔ 

انس بن مالك رضی الله عنه سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « *إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمِ ٱلْمَسْأَلَةَ وَلَا يَقُوْلَنَّ: اللّٰهُمَّ إنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِيْ، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ* ».
جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یقین وقطعیت کے ساتھ سوال کرے۔ یوں نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے دے دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔ 

( *متفق عليه* : صحيح البخاري: كتاب الدعوات. رقم: 6338، وصحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء. رقم: 2678 ).

 *نوٹ*

اس حدیث میں دعاء کے آداب سکھائے گئے ہیں، کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اس یقین سے مانگے کہ اب میری دعاء قبول ہو چکی ہے، اور اللہ تعالیٰ میری مراد پوری فرمائے گا۔ 
اللہ تعالیٰ کو « *إنْ شِئْتَ* »، اگر تو چاہے تو دے۔ یہ بے معنی بات ہو جائے گی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، کسی کے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ ﴿ *فَعَّالٌ لِمَا يُرِيْدُ* ﴾، جو چاہے اسے کر گزرنے والا ہے۔ ( *البروج* : 16 ).
 بندہ اپنی حیثیت پہچانے وہ *عبد* ہے، فقیر ہے، محتاج ہے ایسے میں اللہ تعالیٰ سے ڈٹ کر مانگے، گڑگڑائے، بار بار سوال کرے۔ 
امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر باب قائم فرمائے ہیں، وہ قابل غور ہے: ( *بابٌ: لِيَعْزِمِ ٱلْمَسْأَلَةَ فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ* )، اللہ تعالیٰ سے یقینی کیفیت سے دعاء کرے، کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔ 

رہا دوران گفتگو ہم جو (( *إنْ شَاءَ اللّٰهُ*  )) کہتے ہیں، اس کا ترجمہ ہے ( اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور ارادہ ہو، اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو )۔

یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا ارادہ کریں تو إن شاء الله ضرور کہہ لینا چاہیے، کیونکہ انسان کو پتہ نہیں کہ وہ جس کام کے کرنے کا ارادہ کیا ہے اس کی توفیق بھی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی یا نہیں؟؟

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی دیا ہے: ﴿ *وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَيْءٍ إَنِّيْ فَاعِلٌ ذَلِكَ غَداً * إلَّا أَنْ يَشَاءَ اللّٰهُ* ﴾، اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا۔ مگر ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ لینا۔ ( *الكهف* : 23- 24 ).

آیت میں ( *غَداً* ) سے مراد مستقبل ہے۔ 

وفق الله الجميع للخير

محمد معاذ أبو قُحافة
٢٤ جمادي الأولى ١٤٤٠ھ الخميس

No comments:

Post a Comment