زکاۃ فطر کے مسائل
اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
داعی احساء اسلامک سینٹر،سعودی عرب
زکاة فطر کی فرضیت :
صوم رمضان کی فرضیت کے سال ہی ٢ھ میں اس کی مشروعیت ہوئی۔ماہ رمضان مکمل ہونے پرصلاة عید کی ادائیگی سے قبل ہرمسلمان پر زکاة فطر کی ادائیگی فرض ہے ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان پرخواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت، آزاد ہویا غلام زکاة فطر کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے ۔
«فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ»( أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب فرض صدقة الفطر رقم 1432۔ أخرجه مسلم في الزكاة باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير رقم 984۔ ) عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا فطرہ ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو، ہر آزاد وغلام، مردو عورت ، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔ نیز آپ نے حکم دیا کہ عید کے لئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے اسے ادا کر دیا جائے ۔
ہرمسلمان کو اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جن کا نان ونفقہ اس پر لازم ہے زکاة فطر ادا کرنا چاہئے۔
بہت سارے مسلمان زکاة فطر کی ادائیگی میں غفلت ولاپرواہی سے کام لیتے ہیں جو یقیناً انتہائی افسوسناک حرکت ہے۔
زکاة فطر کی حکمت :
زکاۃ فطر میں بہت سی دینی واخلاقی اور اجتماعی ومعاشرتی حکمتیں پائی جاتی ہیں، چند کا ہم مختصر طور پر ذکر کررہے ہیں۔
١۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی میں اﷲ کی نعمت کے شکریہ کا اظہار ہے کہ اس نے رمضان کے صیام وقیام کی تکمیل کی توفیق بخشی اور اس مہینہ میں نیک اعمال کرنے کی سہولت عطا فرمائی۔
٢۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے حالت صوم میں صادر ہوجانے والی کوتاہیوں، خامیوں، کمیوں، لغویات،نقائص اور گناہ کے کاموں سے پاکی ہوجاتی ہے۔
٣۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی فقراء اور مساکین کے ساتھ بہتر سلوک اور نیک رویہ کا مظہر ہے۔
٤۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے سخاوت وفیاضی اور ہمدردی وغمخواری کے بلند ترین اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
٥۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے عید کے پر مسرت موقعہ پر غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کو بھیک مانگنے کی ذلت سے محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بھی امیروں اور دولت مندوں کے دوش بدوش عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں اور عید سب کی عید ہو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.( رواه أبو داود وابن ماجه والحاكم وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/ 263) رقم: 1085 - )
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاة فطر کو صائم (روزہ دار ) کی لغو اور بیہودہ باتوں سے پاکی کے لئے اور مسکینوں کی خوراک کے لئے مقرر فرمایا۔ جس نے اسے صلاة عید سے پہلے ادا کیا تو اس کی زکاة مقبول ہے اور جس نے صلاة عید کے بعد ادا کیا تو وہ (زکاۃ فطر نہیں بلکہ) عام صدقوں کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔
زکاة فطر میں کون سی جنس نکالنی چاہئے ؟ :
زکاة فطر ان اجناس میں سے ہونا چاہئے جو انسانوں کی خوراک ہیں مثلا گیہوں ، جو ، کھجور، کشمش ، پنیر، چاول ، مکئی یا کوئی دیگر چیز جو انسانوں کی خوراک مانی جاتی ہے ۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ»( أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب صدقة الفطر صاع من طعام رقم 1435۔ )
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صاع غلہ (کھانا)صدقۂ فطر نکالا کرتے تھے اور ان دنوں ہمارا غلہ (کھانا) جو،کشمش ، پنیر اور کھجور تھا۔
معلوم ہوا کہ:
١۔ جانوروں کا چارہ فطرہ میں نکالنا درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرہ مسکینوں کی خوراک کے لئے فرض کیا ہے نہ کہ چوپایوں کی خوراک کے لئے۔
٢۔آدمیوں کی خوراک کے علاوہ کپڑے، فرش، برتن اور سازوسامان وغیرہ بھی فطرہ میں نکالنا صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غلہ میں متعین کیا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ حدود سے تجاوزنہیں کیا جائے گا۔
٣۔ غلہ کی قیمت نکالنا بھی درست نہیں کیونکہ :
۔یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔
۔ قیمت نکالنا عمل صحابہ کے بھی خلاف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک صاع غلہ ہی نکالا کرتے تھے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر مختلف اجناس میں متعین کیا ہے جن کی قیمتیں غالباً مختلف ہوتی ہیں ، اگر قیمت کا اعتبار ہوتا تو کسی ایک جنس کا ایک صاع واجب ہوتا اور دوسرے اجناس سے اس کی قیمت کے مطابق مقدار واجب ہوتی ۔
۔قیمت نکالنے سے فطرہ کی حقیقت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ وہ ایک ظاہری شعار ہے جسے سب جانتے ہیں جبکہ قیمت نکالنے کی شکل میں وہ ایک مخفی صدقہ ہوجاتا ہے جسے صرف دینے اور لینے والے ہی جانتے ہیں( )۔
زکاة فطر کب واجب ہوتا ہے؟ :
عید کی رات سورج ڈوبنے کے وقت صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے ۔اگر کوئی شحص غروب سے پہلے خواہ چند منٹ ہی پہلے انتقال کرجائے تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ،اور اگر غروب کے بعد انتقال ہوا خواہ چند ہی منٹ بعد تو صدقۂفطر نکالنا واجب ہے ۔اسی طرح اگر غروب سے پہلے بچہ کی پیدائش ہوئی تو اس کی طرف سے فطرہ نکالنا واجب ہے اور اگر غروب کے بعد پیدائش ہوئی تو واجب نہیں ۔
زکاة فطر ادا کرنے کا وقت :
فطرہ ادا کرنے کے دو اوقات ہیں ایک فضیلت کا وقت اور ایک جواز کا وقت ۔
فضیلت کا وقت عید کے دن صلاة عید سے پہلے کا ہے۔ لہذا افضل یہ ہے کہ عید کے دن صلاۃ عید سے پہلے زکاۃ فطر غریب کو دیا جائے۔
صحیح بخاری میں عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاة عید کے لئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے زکاۃ فطر ادا کردینے کا حکم دیا۔ عن ابن عمر رضي الله عنهما : أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بزكاة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلاة( أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب الصدقة قبل العيد رقم 1438۔ )۔
جواز کا وقت عید سے ایک یا دو دن پہلے کا ہے۔ لہذا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ ایک یا دودن پہلے ہی زکاۃ فطر غریب کو پہنچادے۔ لیکن یاد رہے کہ اس سے پہلے اگر فطرہ دے دیا گیا تو ادا نہ ہوگا۔ اگر کسی نے اٹھائیس رمضان سے پہلے ہی فطرہ ادا کردیا تو قبل از وقت ادائیگی کی بنا پر فطرہ ادا نہ ہوگا، دوبارہ ادا کرنا پڑے گا۔
صحیح بخاری میں نافع رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے اور بڑے سب کی طرف سے فطرہ نکالتے تھے یہاں تک کہ وہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دے دیتے تھے۔ فطرہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو اسے قبول کیا کرتے تھے نیز اسے عید الفطر سے ایک دن یا دو دن پہلے دے دیا جاتا تھا ۔ يقول نافع رحمه الله: فكان ابن عمر يعطي عن الصغير والكبير حتى إن كان يعطي عن بني . وكان ابن عمر رضي الله عنهما يعطيها الذين يقبلونها وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين( أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب صدقة الفطر على الحر والمملوك رقم 1440 ۔ )۔
جس طرح فطرہ قبل از وقت دینا جائز نہیں اسی طرح فطرہ کی ادائیگی میں کسی عذر کے بغیر صلاة عید پڑھ لینے تک تاخیر بھی جائز نہیں، اگر کسی نے دانستہ طور پر موخر کردیا تو قبول نہ ہوگا البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہے تو حرج نہیں۔
زکاة فطر کی مقدار :
ہرفرد کی طرف سے ایک صاع غلہ صدقۂ فطر کی مقدار ہے۔ ایک صاع غلہ کا وزن اچھے گیہوں سے تقریباً ڈھائی کیلو گرام ہوتا ہے ۔ معلوم رہے کہ صاع ناپنے کا ایک پیمانہ ہے، ناپنے والی چیز کو جب وزن میں تبدیل کیا جائے گا تو مختلف چیزوں کا وزن اور بسا اوقات ایک ہی چیز کا وزن اس کی کیفیت بدل جانے سے مختلف ہوجاتا ہے۔ اسی لئے بطور احتیاط غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے اگر کوئی تین کیلو غلہ ادا کردے تو زیادہ بہتر ہے۔
اگر کسی کے پاس وزن کرنے کا کوئی آلہ موجود نہ ہو تو متوسط آدمی کے ہاتھ سے چار لپ [چُلو] دے دینے سے ایک آدمی کی طرف سے فطرہ ادا ہوجائے گا۔
زکاة فطر کا مصرف اور اس کے حقدار :
زکاۃ فطر کے حقدار صرف فقراء اور مساکین ہیں، زکاة کے بقیہ آٹھوں مصارف میں اسے خرچ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض کیا لغو اور بیہودگی سے صائم کی پاکی کے لئے اور مسکینوں کی خوراک کے لئے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.( رواه أبو داود وابن ماجه والحاكم وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/ 263) رقم: 1085 - )
لہذا مسجد یا مدرسہ یا اسلامی مراکز میں صدقۂ فطر دینا درست نہیں ۔ ہاں! ایسی جمعیت میں فطرہ دے سکتے ہیں جو اسے غریبوں اور مسکینوں میں خرچ کرنے کا انتظام کرتی ہو اور اسے اصل حقداروں تک پہنچاتی ہو۔
فطرہ ایک سے زیادہ فقیروں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ کئی فطرے ایک ہی فقیر کو دے دئے جائیں ۔
نوٹ : کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ فقراء و مساکین کے بجائے رشتہ داروں ، پڑوسیوں یا باہمی تبادلہ کے طور پر یاہر سال چند متعین خاندانوں ہی کوزکاة فطر دیا کرتے ہیں اور ان کی مالی پوزیشن پر غور نہیں کرتے کہ وہ زکاة کے حقدار ہیں بھی یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر مذکورہ لوگ غریب ومسکین نہیں ہیں تو وہ نہ ہی فطرہ لینے کے حقدار ہیں اور نہ ہی ان کو فطرہ دیا جانا درست ہے۔ اﷲ تعالی ہر مسلمان کو صدقۂ فطر کی درست ادائیگی اور صحیح مصرف میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
زکاة فطر دینے کی جگہ :
مسلمان جہاں پر عید کرے وہیں کے فقیروں کو اپنا فطرہ دے دے خواہ وہ اس کا وطن ہو یا وہاں عارضی طور پر مقیم ہو اور اگر کسی دوسری جگہ یا دوسری بستی کے فقیروں کو پہنچادے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اصل جواز ہے اور دوسری جگہ بھیجنے سے روکنے والی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم
No comments:
Post a Comment