ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتدا

شیخ عبدالوھاب مدنی کا خطاب
 بعنوان:ہندوستان میں اہل حدیث کی ابتدا
زیر اہتمام :جمعیت اہل حدیث مالیگاؤں
جلسہ بعنوان:تحریک اہل حدیث ماضی و حال

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
ہندوستان میں اہل حدیث کی تاریخ انتہائی قدیم ہے اصحاب رسول ﷺ کی دعوت و تبلیغ کا نتیجہ ہے
ہندوستان میں دعوت اہل حدیث وفات رسول ﷺ کے 4 سال بعد سنہ١٥ھ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں پہنچ چکی تھی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو صحابہ ہند میں آئے ان میں حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے اپنے بھائی حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کا کمانڈر بناکر ممبئی کے شہر تھانہ اور گجرات کے شہر بھروچ روانہ کیا-اس کے بعد مغیرہ بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کراچی کے علاقہ میں روانہ کیا گیا
یہ ہندوستان میں تحریک اہل حدیث کی ابتدا کہئے جو خالص کتاب و سنت کی تبلیغ کے لئے تھی
سنہ١٧ھ میں حکیم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مکران کا والی مقرر کیا سنہ٢٣ھ میں مکران فتح ہوا
عبداللہ بن عمر اشجعی رضی اللہ عنہ آئے اور سندھ کی فتح میں شرکت کی. سنہ٤٢ھ میں عبدالرحمن بن سمرہ قرشی رضی اللہ عنہ نے ہند کے کئی علاقے فتح کئے
خیر القرون کے اندر ہی صحابہ کرام ہند میں آگئے تھے
تابعین کے دور میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ آئے اور سندھ فتح کی-امام حسن بصری رحمہ اللہ(و. ١١٠ھ)بلوچستان تشریف لائے- تابعین نے کتاب و سنت کو عام کیا
تبع تابعین میں سے ابو موسیٰ اسرائیل بن موسی ہندی بصری بھی تشریف لائے. ملتان میں عظیم محدث جعفر بن محمد ہاشمی تشریف لائے. امام ربیع بن سبیح (غالباً.و. ١٦٠ھ)ہند کے صوبہ گجرات کے شہر بھروچ تشریف لائے. مختلف علاقے بلوچستان، ملتان، سندھ، مکران، کراچی کے علاقے، ممبئی کے علاقے، گجرات کے علاقے، کرلہ کے ساحلی علاقے وغیرہ میں صحابہ تشریف لائے
آگے بڑھتے ہیں
سندھ کے حاکم عبداللہ بن عمر ہباری نے ہندوستان کے راجہ مہاراجہ مہروق کو خط لکھا. راجہ مہروق نے سنہ٢٧٠ھ میں حاکم سندھ کو اس خط کا جواب لکھا کہ میں اسلام کے متعلق جاننا چاہتا ہوں تو حاکم سندھ نے ایک عالم مخصوص کیا اور ان تک اسلامی تعلیمات پہنچائی گئی نتیجتاً انہوں نے اسلام قبول کر لیا. مشہور کتاب "احسن التقاسيم في معرفة الأقاليم" مصنفہ بشاری مقدسی(و٣٨٠ھ) میں سنھ کے مشہور شہر منصورہ کے متعلق لکھا ہے کہ میں نے یہاں کی مذہبی حالت دیکھی کہ اکثر لوگوں کو میں نے "اصحاب الحدیث" پایا
اس سرزمین پر بہت سے سلاطین ایسے گزرے کہ جب ان کے سامنے صحیح مسئلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں پہنچا تو انہوں نے اپنا مسلک چھوڑا ہے. محمود غزنوی حنفی تھے نماز پر مناظرہ ہوا تو اس مناظرے کے تاثر سے نماز میں حنفی مسلک کو ترک کردیا.
بکر بن ابوزید رحمہ اللہ کی کتاب "التحول المذھبی" میں ایسے علماء و ائمہ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے قرآن و حدیث کے آنے سے اپنے مذہب کو ترک کردیا
نظام الدین اولیاء(و. ٧٢٥ھ)امام کے پیچھے جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے قائل تھے اور غائبانہ نماز جنازہ کے بھی قائل تھے. ان کے دور میں تقلیدی تعصب نہیں تھا
قاضی عبدالنبی بن أحمد گنگوہی (و. ٩٩١ھ)صاحب نزھۃ الخواطر لکھتے ہیں کہ انہوں نے حجاز کا سفر کیا. ابن حجر مکی سے حدیث پڑھی پھر جب لوٹے تو سماع، وحدۃ الوجود اور عرس کے مسئلہ میں مخالفت کی اور خالص سنت کا پیغام دیا. ان کو گھر سے نکال دیا گیا. اکبر بادشاہ کا دور تھا انہوں نے دین الہی ایجاد کیا. تو اکبر کی سب سے زیادہ مخالفت قاضی عبدالنبی نے کی. مخالفت کی وجہ سے ان کو مکہ بھیج دیا گیا پھر بغیر بتائے جب ٩٧٩ھ میں ہندوستان آگئے تو ان کو جیل میں ڈال دیا گیا
قصور صرف اکبر کے دین، وحدۃ الوجود وغیرہ کی مخالفت
سلطان مظفر حلیم گجراتی (و. ٩٣٢ھ)صاحب نزھۃ الخواطر نے لکھا ہے کہ جب ان کو صحیح احادیث کے نصوص مل جاتے تو اس پر عمل کرتے تھے. نماز استسقاء کا اہتمام کرتے تھے جبکہ حنفیہ میں یہ نماز نہیں ہے
قاضی نصیرالدین برہانپوری (و.١٠٣١ھ)اپنے زمانے میں حدیث اور اسماء الرجال کے ماہر تھے-١٨سال کی عمر میں شکر اللہ سراجی سے مناظرہ کیا اور ان کو شکست دی. کتاب و سنت کے پابند تھے اس لئے ان کے سسر ان کے مخالف ہوگئے ان کے سسر نے یہ فتوی جاری کیا کہ ان کو قتل کیا جائے اور ان کو جلا دیا جائے
عظیم محدث ابوالحسن سندھی(و.١١٣٦-یا-١١٣٨ھ)سینے پر ہاتھ باندھتے تھے اور رفع الیدین کرتے تھے ان کے خلاف قاضی ترکی کو شکایت کی گئی تو انہوں نے ان کو اندھیری کوٹھری میں بند کروایا کہ جہاں وہ اپنا ہاتھ نہ دیکھ سکے اور وہیں پیشاب پاخانہ کرے
علامہ محمد حیات سندھی (و.١١٦٤ھ-مطابق.1750م)امام محمد بن عبدالوھاب کے استاد تھے
علامہ محمد فاخر زائر الہ آبادی (و.١١٦٤ھ.مطابق.1751م){مصنف..رسالہ نجاتیہ} سب سے پہلے رفع الیدین کے سلسلے میں کتاب لکھی
(ان کے نماز میں آمين کہنے کا واقعہ کتاب تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں ص. 177 [بحوالہ تراجم علماء ہند ص.278.مصنف. مولانا أبو یحییٰ خاں نوشہروی] بڑا دلچسپ ہے)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(و. ١١٧٦ھ..١٧٦٢م)حجاز سفر کیا وہاں احادیث پڑھی پھر ہندوستان میں حدیث کی دعوت دی. 

شاہ اسماعیل شہید (و. ١٨٣١م)وفات سے چار سال قبل تقویۃ الایمان شائع ہوئی. اس کتاب کے ذریعے علما نے توحید کو اپنایا 
تحریک شہیدین سے جڑے ہوئے لوگوں میں مولانا محمد علی رامپوری نے مدراس میں توحید کی دعوت کو عام کیا. رسوم و رواج کو ختم کروایا ان کی مجلس میں کئی کئی لوگ اپنے عقائد سے توبہ کرتے تھے 

کہا جاتا ہے کہ اہل حدیث 1857 سے پہلے نہیں تھے جبکہ 1857 سے قبل بریلوی مسلک کے بڑے عالم مولانا عبدالفتاح گلشن آبادی(ناسک) کی کتاب تحفہ محمدیہ شائع ہوئی اس میں انہوں نے کئی اہل حدیث علماء کا رد کیا (یہ کتاب 1857 سے پہلے شائع ہوئی تھی) 

مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے کہا تھا کہ محدث نذیر حسین دہلوی مکہ آجائے تو دیکھتا ہوں کہ یہاں سے زندہ واپس کیسے جائے 

نواب مبارز الدولہ کا مشن تھا اپنے علاقے میں توحید کو عام کرنا اور انگریزوں سے لڑائی لڑنا. اور یہ وہابیت کے نتیجے میں تھا ان کو 1839 میں قید کرلیا گیا اور قید ہی میں 1854 میں وفات پائی 

🖋️محمد شعیب امین

No comments:

Post a Comment