فتاوے
سوال : قرآن میں آیا ہے کہ "کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون" تو کیا اس میں وہ خیالات جو انسان اپنے جی میں سوچتا ہے ، کیا انہیں بھی یہ فرشتے جانتے ہیں ؟ کیا اس آیت سے فرشتوں کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ؟
جواب : یہ سورہ انفطار کی آیت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اللہ تعالی نے لکھنے والے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے اعمال کو لکھ رہے ہیں ۔ اس میں وہی اعمال آتے ہیں جس کو وہ دیکھ سکیں یعنی انسانی بدن کے افعال ۔ دل کے خیالات، ارادے اور نیت سے یہ واقف نہیں ہوپاتے ۔ وہ تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔ یہ تو صرف وہ کام جانتے ہیں جو ان کے سامنے آجائے ۔ غیب کا جاننے والا تو اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں، خواہ انسان ہوں یا فرشتے ، جن یا کوئی اور مخلوق ۔ قرآن میں اس کی صراحت کردی گئی ہے ۔
سوال : مونچھیں منڈوانا کیسا ہے ؟
جواب : بخاری اورمسلم میں ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں پست کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔ بعض لوگوں نے پست کرانے سے منڈوانا مراد لیا ہے لیکن امام مالک ؒ کی بات فیصلہ کن معلوم ہوتی ہے کہ منڈنا نہیں چاہئے ، جیساکہ تاریخ میں آتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جب تفکر کے عالم میں ہوتے تھے تو اپنی مونچھوں کو دانتوں میں دبا لیتے تھے ۔ اب اگر مونچھیں مونڈدی جائیں تو دانتوں کے درمیاں دبانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ جو مونچھوں کو مونڈتے ہیں وہ مثلہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالی کی دی ہوئی شکل اور ہیئت کو بدلتے ہیں ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں تیرے بندے کو اس طرح سے راہ دکھاؤں گا کہ وہ صورتوں کو جو تیری تخلیق کی ہوئی چیز ہے بدل دیں گے ۔ تو امام مالک ؒ یہ مثلہ ہے اور شیطانی عمل ہے ۔ اور مسلم کی ایک روایت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کھانے پر مہمان تھے ، جب وہ پہنچے ہیں تو آپ نے فرمایاکہ مغیرہ تمہاری مونچھیں لب سے آگے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسواک اور ایک چھری منگوائی اور مسواک رکھ چھری سے جو بال آگے آگئے تھے انہیں کاٹ دیا۔ اس زمانہ میں یہی انداز ہوتا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مونچھیں مونڈ دینا صحیح نہیں ۔
No comments:
Post a Comment