شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں چودویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
چودہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
___________________

*متعہ کے جواز پر شیعی دلائل اور ان کا رد*

*محترم قارئین!* رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں:

*شیعی دلیل نمبر 1:*
اللہ کا فرمان ہے:
"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ" (النساء:24)
ترجمہ: "پس ان عورتوں میں سے جس سے بھی تم فائدہ اٹھاؤ تو ان کا مقرر کیا ہوا معاوضہ انہیں دے دو"...
شیعوں کا کہنا ہے کہ: "اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے....

*دلیل نمبر 1 کا رد:* پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، جبکہ اِس آیت میں مرد کے لئے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے... مزید یہ کہ اللہ نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے، اور حدیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں...

دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے، اللہ نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے...
"یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" (الأحزاب 50)
ترجمہ: "اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ کے لئے آپ کی ان بیویوں کو حلال کیا ہے جنہیں آپ نے ان کی اجرت (مہر) دے دی ہے"...
اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے...

تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ "یہ آیت منسوخ ہے"... اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لئے اللہ نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے..... اور اس تعلق سے ہم نے کئی دلائل کا تذکرہ قسط نمبر 12 میں کیا تھا، قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں...

*شیعی دلیل نمبر 2:* "بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں"...

*دلیل نمبر 2 کا رد:* روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں... ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں... یعنی کہ میٹھا میٹھا گپ، کڑوا کڑوا تھو...
رہی بات ان صحابہ کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لئے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا...
جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں... آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ: "اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! ذرا ٹھہرو! بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا" (مسلم 1407)

*محترم قارئین!* چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں... جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے... فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے:

*دلائل قرآن سے:*

1- سورۃ النساء آیت نمبر 25
2- سورۃ النور آیت نمبر 33
اور دیگر دوسری آیات

*دلائل سنت مطہرہ سے:*

1- صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407
2- صحيح مسلم 1406
3- تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154
4- ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318
5- صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022
6- صحيح مسلم 1405
7- صحيح بخاری 4216
8- صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154
9- صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کے چند چیدہ چیدہ عقائد"

*+919022045597*

No comments:

Post a Comment