*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
تیرہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
____________________
*محترم قارئین!* پچھلی گفتگو میں ہم نے "متعہ کی شرعی حیثیت" اور "شیعوں" کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات کا تذکرہ کیا تھا... اب ان شاء اللہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شیعوں کی نظر میں "متعہ" کی فضیلت اور اس کے جواز پر ان کی دلیلیں نیز ان دلیلوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم رد کرنے کی کوشش کریں گے....
*"متعہ" کا مقام شیعوں کی نظر میں*
"متعہ" یعنی زناکاری کو شیعہ نماز، روزہ اور حج سے بھی افضل عبادت مانتے ہیں، جو جتنی زیادہ زناکاری (متعہ) کرے اس کا رتبہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے یعنی ایسا کر کے وہ بتدریج اور بالترتیب حضرت حسین، حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے اور ان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے...
ہم اپنی اس بات کے لئے خمینی صاحب کی کتاب "منہج الصادقين" میں موجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث بطورِ دلیل پیش کئے دیتے ہیں:
"مَنْ تَمَتَّعَ مَرَّۃً فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحُسَین، وَمَن تَمَتَّعَ مَرَّتَین فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحَسَن ،وَمَن تَمَتَّعَ ثَلَاثَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ عَلِيٍّ، وَمَن تَمَتَّعَ اَربَعَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَتِي"....
یعنی جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسن علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو تین مرتبہ متعہ کرے وہ امیر المومنین علیہ السلام (علی رضی اللہ عنہ) کا درجہ پائے گا، اور جو چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا (پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) درجہ پائے گا.... (منہج الصادقين للخمینی ج 1 ص 356)
نعوذ باللہ من ذلك.... لیجئے صاحب! اب مقام و مرتبے اعمال صالحہ کرنے اور نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے سے نہیں بلکہ "زناکاری" (متعہ) کا ارتکاب کر کے حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے...
*محترم قارئین!* لیں اسی طرح کی ایک اور روایت بلکہ فضیلت پڑھتے ہوئے اپنی حیرت میں مزید اضافہ کریں...
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ
"ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ "میں نے زنا کیا ہے لہذا آپ مجھے پاک کر دیجئے".... چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا...... لیکن جب اس کی اطلاع امیر المومنین علیہ السلام (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو دی گئی تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ "تو نے کس طرح زنا کیا تھا؟"...... اس عورت نے جواب دیا کہ "میں جنگل میں گئی تھی، وہاں مجھ کو سخت پیاس محسوس ہوئی، تو ایک اعرابی سے میں نے پانی کا سوال کیا، اس نے مجھے پانی پلانے کے لئے ایک شرط رکھی کہ میں اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دوں.... جب مجھ کو پیاس نے بہت زیادہ مجبور کر دیا اور مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہوا تو میں راضی ہو گئی اور میں نے اس کی شرط مان لی، اس نے مجھے پانی پلایا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا"..... یہ پورا معاملہ سننے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "قسم کعبہ کے رب کی، یہ تو زنا نہیں بلکہ نکاح ہے".... (فروع کافی ج 2، ص 198)
دیکھئے اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق زنا کا وجود دنیا سے اٹھ گیا ہے، بازاروں میں جس زنا کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں تو مرد و عورت دونوں باہم راضی ہو ہی جاتے ہیں... یہاں اس روایت کے مطابق اگر پانی کے بدلے زنا پر آمادگی و رضامندی دے دی تو وہاں اس سے بڑھ کر دولت و روپیہ دیا جاتا ہے... گواہ، وکیل، ولی اور ایجاب و قبول کی شرطیں نہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں.... شاباش....
بقول شاعر
منظور ہے کہ سیم تنوں کا وصال ہو
مذہب وہ چاہیئے کہ زنا بھی حلال ہو
*متعہ اور زنا میں مماثلت*
*محترم قارئین!* ہماری اوپر کی گفتگو میں آپ نے بارہا "متعہ" کے بدلے لفظ "زنا" کا استعمال دیکھا اور پڑھا ہے... ایک سوال شاید آپ کے ذہن میں انگڑائیاں لے رہا ہو کہ میں نے آخر ایسا کیوں کیا... تو آیئے آپ کے اس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں:
* زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے...
* زنا کے لئے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک...
* زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے...
* زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو...
* زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے...
* زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی...
* زانیہ وارث نہیں بن سکتی...
* زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے...
اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ "زنا" نکال دیں اور اس کی جگہ "متعہ" کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے "زنا" کہا جاتا ہے اور اُسے "متعہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے... اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ کا فرمان بھی پڑھ لیں... "وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً" یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے... (بنی اسرائیل 32)
(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "متعہ کے جواز کے لئے شیعی دلائل اور ان کا رد"
*+919022045597*
No comments:
Post a Comment