1- سوال: عشرہ ذی الحجہ میں قربانی کرنے والے کیلئے بال اور ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا)).
جو کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے اس کیلئے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں ناخن اور بال کاٹنا جائز نہیں ہے.
[صحیح مسلم (3/1565)، سنن اربعہ میں بھی یہ روایت موجود ہے]
مندرجہ بالا حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد سے لے کر جانور ذبح کرنے تک اس کیلئے ناخن یا بال کاٹنا جائز نہیں ہے.
یحی بن یعمر رحمہ اللہ خراسان میں قربانی کرنے والوں کو ناخن اور بال کاٹنے سے منع کیا کرتے تھے، ایک شخص نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے یحییٰ بن یعمر کا عمل ذکر کیا تو انہوں نے ان کے اس عمل کی تحسین کی، اس شخص نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بال اور ناخن کاٹنے سے روکنے کی دلیل کیا ہے؟
سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا ہی کیا کرتے تھے یا کہا کرتے تھے.
[الاستذكار"(4/87)، والمحلى( 6/28 )]
بعض علمائے کرام عشرہ ذی الحجہ میں قربانی کرنے والے کیلئے ناخن اور بال کاٹنے کے جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے: ((لَقَدْ كُنْتُ أَفْتِلُ قَلاَئِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَبْعَثُ هَدْيَهُ إِلَى الكَعْبَةِ، فَمَا يَحْرُمُ عَلَيْهِ مِمَّا حَلَّ لِلرِّجَالِ مِنْ أَهْلِهِ، حَتَّى يَرْجِعَ النَّاسُ)).
میں رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے جانور کا ہار بنایا کرتی تھی، پھر آپ اپنی قربانی کعبہ بھیج دیتے، پس لوگوں کے واپس آنے تک آپ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہ ہوتی تھی جو ان کے گھر کے دوسرے افراد پر حلال ہو۔
[صحیح البخاری (5566)، شرح معاني الآثار ( 4/182 )، الاستذكار(4/85)، شرح الآبي على صحيح مسلم( 5/307 )]
لیکن اس حدیث سے عشرہ ذی الحجہ میں قربانی کرنے والے کیلئے بال اور ناخن کاٹنے کے جواز پر استدلال کئی اسباب کی بنیاد پر درست نہیں ہے:
ا- ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہَدْی کے سلسلے میں میں ہے، جبکہ ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث قربانی کے سلسلے میں ہے، دونوں کے احکام مختلف ہیں.
ب- ام المؤمنين ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ذکر کیا گیا ہے، جبکہ ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ کا فعل نقل کیا گیا ہے، اور فعل میں خصوصیت کا احتمال ہوتا ہے، یعنی ممکن ہے یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو، جب کہ قول میں اس بات کا احتمال نہیں ہوتا.
ج- بعض علمائے کرام نے کہا ہے: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث عام ہے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث خاص ہے، اور خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا.
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے پتا چلتا ہے کہ ہدی جانور مکہ بھیجنے سے کوئی مُحْرِم نہیں ہوگا، جب تک وہ اپنے اہل و عیال کے درمیان رہتا ہے اس پر حالت احرام کی پابندی عائد نہیں ہوگی، بعض سلف کہتے تھے کہ ہدی کاجانور مکہ بھیجنے سے آدمی حالت احرام میں ہوجاتا ہے، انہی پر رد کرنے کیلئے ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث بیان کی.
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث قربانی کاارادہ رکھنے والے کیلئے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں ناخن اور بال کاٹنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے، دونوں حدیث کا مقصد الگ الگ ہے، اس لئے امام احمد اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ دونوں حدیث پر عمل کیا کرتے تھے.
[المغني مع الشرح الكبير( 7/96 )، شرح منتهى الإرادات (2/623)، المغني ( 9/346)، حاشية ابن القيم على سنن أبي داود بهامش عون المعبود ( 7/348 )، نيل الأوطار ( 5/128 )]
2- جو شخص قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کیلئے بال اور ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
ایسا شخص اگر قربانی کا اجر و ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے بہتر ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں اپنے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹے، جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن (2/ 263)، اور شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے سنن ابو داود کی شرح (5/ 329) میں فرمایا ہے، چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ " ، فَقَالَ الرَّجُلُ : أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)).
”مجھے اضحیٰ کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اسے بطور عید مناؤں جسے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے خاص کیا ہے۔“ ایک آدمی نے کہا: اگر مجھے پاس دودھ والے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو، ﷲ کے ہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی۔
[سنن ابی داود (2789)].
بعض اہل علم نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے.
3- کیا پورے گھر والوں کیلئے ناخن اور بال کا کاٹنا حرام ہوگا یا صرف اس کیلئے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو؟
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ قربانی کرنے والے کے گھر والوں پر بھی ناخن اور بال کا کاٹنا حرام ہوگا.
[کیسٹ 112، متفرقات]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کرنے والے کے اہل خانہ کو ناخن اور بال کاٹنے سے منع نہیں کیا جائے گا، یہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے.
[فتاوى إسلامية" (2/316)]
شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ناخن اور بال کاٹنے کی حرمت صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے، اس گھر والوں کو اس کا مکلف نہیں کیا جائے گا.
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والے کی جانب سے قربانی کرتے تھے لیکن کہیں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو ناخن اور بال کاٹنے سے منع کرتے تھے....
[الشرح الممتع (7/530)]
کچھ لوگ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ایک قول سے استدلال کرتے ہوئے قربانی کرنے والے کے اہل خانہ کو بھی ناخن اور بال کاٹنے سے منع کرتے ہیں، أخبرني أحمد بن محمد بن سلمة العنزي ثنا عثمان بن سعيد الدارمي ثنا يزيد بن عبد ربه ثنا الوليد بن مسلم قال : سألت محمد بن عجلان عن أخذ الشعر في الأيام العشر فقال : حدثني نافع : أن ابن عمر مر بامرأة تأخذ من شعر ابنها في الأيام العشر فقال : لو أخرتيه إلى يوم النحر كان أحسن.
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عشرہ ذی الحجہ میں ایک خاتون کو اپنے بیٹے کا بال کاٹتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: اگر قربانی کے دن تک مؤخر کردیتی تو زیادہ بہتر ہوتا، یعنی قربانی کے دن بال کاٹتی تو اچھا ہوتا.
بظاہر اس اثر کی سند حسن معلوم ہو رہی ہے، لیکن حقیقت میں یہ سند ابن عجلان کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ یہاں انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے، اور نافع سے ان کی روایت مضطرب ہوتی ہے، جیسا کہ یحییٰ القطان رحمہ اللہ نے کہا ہے، [الضعفاء للعقیلی (5/ 362)].
معلوم یہ ہوا کہ یہ اثر ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال درست نہیں.
تنبیہ: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر قربانی کرنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ناخن کاٹ لے تو اس کی قربانی باطل ہو جائے گی، یہ بات درست نہیں، اللہ کے یہاں اس کی قربانی مقبول ہوگی ان شاء اللہ، تاہم قربانی کرنے والے کیلئے بال و ناخن کاٹنا حرام ہے، اور حرام کا ارتکاب باعث گناہ ہے، اس لئے اسے اپنے رب سے توبہ و ستغفار کرنا چاہیے.
اور اگر کسی عذر کی بنا پر بال یا ناخن کاٹنے کی ضرورت پیش آ گئی تو کاٹا جاسکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
No comments:
Post a Comment