HASAD KE DAR SE LOGO SE APNI NEMATE CHUPANE KA BAYAN

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​🌴 ​•‍━━•••◆◉﷽◉◆•••‍━━•​🌴​*

           *📚حـــــــدیثِ رســـولﷺ📚*

```✒حسد کے ڈر سے لوگوں سے اپنی نعمتیں چھپانے کا بیان```

*🌹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:*

*💥اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے رازداری کے ساتھ کام لیا کرو کیونکہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔*

📚السلسلة الصحیحہ::257

*🌴𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ ╼𖣔🌴*

HAR ZAROORAT ALLAH SE MANGNI CHAHYE

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​🌴 ​•‍━━•••◆◉﷽◉◆•••‍━━•​🌴​*
  
         *📚حـــــــدیثِ رســـولﷺ📚*

```✒ہر ضرورت اللہ سے مانگنی چاہئے🤲🏻```

*🌹انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :*

*🤲🏻☑’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی تمام ضرورتیں اپنے رب سے مانگنی چاہئیں*

*👞💥حتیٰ کہ جب اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو*

*☑اس کے بارے میں بھی اسی سے سوال کرنا چاہیے ۔‘‘*

📚مشکاة المصابیح:2251
*❀* حکم::حـــــسن

*🌴𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ ╼𖣔🌴*

AAG ME

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​🌴 ​•‍━━•••◆◉﷽◉◆•••‍━━•​🌴​*

       *📚حـــــــدیثِ رســـولﷺ*📚

```✒```آگ  میـــں 🔥

*🌻حـضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پـوچھا*

*🌟اے اللہ کے رســـول ﷺ میرا باپ کہـاں ہے ؟*

*🌹آپﷺ نے فرمایا : ’’ آگ میـں🔥*

*⚙پھر جـب وہ پلٹ گیا تو آپ ﷺ نے اسے بلا کر فـرمایا*

*🔥 بلاشبہ میـرا باپ اور تمہـارا باپ آگ میـں ہیـں*

*✒وضــاحت::* ایک شخص رسولﷺ کے پاس آیا جس کے باپ حالت کفر میں ہی وفات پاچکا تھا انہوں نے آپؐ سے پوچھا کیا میرے والد جہنمی ہے تو آپؐ نے فرمایا ہاں وہ شخص روتے ہوئے لوٹ گئے تو آپؐ نے انہیں بلا کر فرمایا کہ میرے ابی بھی آگ میں ہے (واضح رہے کہ بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہیں پہلے فریق کا کہنا ہے کہ رسولﷺ کے والد بھی جہنمی ہے کیونکہ وہ دینِ ابراھیمی پر نہیں تھے اور دوسرے گروہ کا کہنا ہے رسولﷺ کے فرمان میں " ابی" سے مراد رسولﷺ کے چچا تھے جو کہ آپ کی حیات میں بھی کفر پر ہی باقی رہے (واللہ اعلم بالصواب)

📚صحیح مسلم::500

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​📚🌴⁩┈┈┈┈•✶✾✶•┈┈┈📚🌴​*

Zilhijjah ke pehle ashre ke roze

👇👇👇👇👇

ذو الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزے رکھنا مستحب ہے، اسکے جمہور علمائے کرام قائل ہیں؛ اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کے ہاں ایسا کوئی عمل نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو)صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں !؟ آپ نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! ہاں ایک شخص جو اپنے مال وجان کیساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا)بخاری: (969)، ابو داود (2438) – الفاظ ابو داود ہی کے ہیں– ، ترمذی (757) اور ابن ماجہ(1727) نے اسے روایت کیا ہے۔

بلا شبہ روزے افضل ترین اعمال میں سے ہیں، اور اس حدیث کی رُو سے روزے بھی ان دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال میں شامل ہیں ۔

جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ [ذو الحجہ ]میں روزے نہیں رکھے"، اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور اس سے معارض روایت ابو داود : (2437) میں ھُنیدہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے نودن ، دس محرم [عاشورا] اور ہر ماہ کے تین روزے رکھا کرتے تھے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ اسکے بارےمیں صحیح سنن ابو داود میں کہتے ہیں: "اسکی سند صحیح ہے"

علمائے کرام کے اس بارے میں متعدد اقوال ہیں:

♦ *اول:*
عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے علم کے مطابق بیان کیا ہے، جبکہ دیگر نے انکے بیان سے مخالفت کی ہے، [اور اصول یہ ہے کہ] جو جانتا ہو، اسے نہ جاننے والے پر حجت مانا جاتا ہے، اور ثابت کرنے والے کو نفی کرنے والے پر ترجیح ہوتی ہے۔

چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"امام احمد نے ان دو احادیث کے متعارض ہونے کے بارے میں فرمایا کہ: [روزے ] ثابت کرنے والے کو [روزوں] کی نفی کرنے والے ترجیح دی جائے گی"انتہی

" الشرح الممتع " (6 /154)

♦ *دوم:*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپکے عمل پر مقدم ہوگا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث آپکا قول ہے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت آپکا عمل ہے، آپ کے قول کو ترجیح اس لئے دی جائے گی کہ ہو سکتا ہے آپکا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مختص ہو، یا آپ نے یہ عمل کسی عذر وغیرہ کی بنا پر کیا ہو۔

چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے صادر ہونے والا قول ساری امت کیلئے شریعت ہوتا ہے، جبکہ آپکی طرف سے کئے سے جانے والے عمل کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مخالفت آپ کی زندگی سے نہ ملے تو ساری امت کیلئے وہ عمل شریعت ہوگا، اور [اگر مخالفت ثابت ہو تو] یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہوگا"

♦ *سوم:*
یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایا م میں روزے سفر، بیماری، مصروفیات یا کسی اور عذر کی بنا پر نہ رکھے ہوں، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی بیان کر دیا جو انہوں نے دیکھا تھا۔

چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ : "میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی [ذو الحجہ کے] عشرے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"اور ایک روایت میں ہے کہ: "آپ نے [عشرہ ذو الحجہ کے]روزے نہیں رکھے"ان دونوں روایات کو مسلم نے روایت کیا ہے، انکے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ: اسکی تاویل یہ کی جائے گی کہ انہوں نے نہیں دیکھا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہ نہ دیکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عشرہ میں روزے نہ رکھنا لازم نہیں آتا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 دنوں میں سے ایک دن عائشہ کے پاس ہوتے تھے، اور باقی ایام دیگر امہات المؤمنین کے پاس ہوتے تھے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عشرہ ذو الحجہ کے کچھ دنوں میں روزہ رکھتے ہوں، اور کبھی پورے عشرے میں ، اور کبھی سفر، بیماری، یا کسی بھی عذر کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہوں، اس توجیہ سے تمام احادیث میں تطبیق دی جاسکتی ہے"انتہی

" المجموع " (6/441)

اور شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عشرہ ذو الحجہ میں ہر قسم کے عمل کی فضیلت پر دلالت کرنے والی احادیث پہلے گزر چکی ہیں، اور روزہ بھی انہی کے ضمن میں آتا ہے، جبکہ صحیح مسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت کہ : " میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھتے نہیں دیکھا" اسکے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ: اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عارضے، بیماری، یا سفر وغیرہ کی وجہ سے نہیں رکھا، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ہی نہیں رکھا ہوگا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ [عشرے میں]روزے رکھنا شرعی عمل ہے، جیسے کہ اسی باب کی حدیث میں موجود ہے، اور [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قول پر ] عمل نہ ہونے کی وجہ سے اسکی مشروعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا"انتہی

" نيل الأوطار " (4/283)

♦ *چہارم:*
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کو عمدا بھی چھوڑا ہو؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کو پسند کرتے تو اس کام کو امت پر فرض ہوجانے کے اندیشے سے چھوڑ بھی دیتے تھے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں باجماعت تراویح ترک کر دی ، اور امت پر آسانی و مہربانی فرمائی۔

چنانچہ امام بخاری: (1128) اور مسلم: (718) میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، لیکن میں یہ نماز پڑھتی ہوں، کیونکہ آپ کسی کام پر عمل کرنے کا ارادہ ہونے کے باوجود اسے ترک کردیتے تھے کہ کہیں لوگ بھی اس پر عمل شروع کردیں، اور پھر ان پر یہ عمل فرض کر دیا جائے"انتہی

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ روزے بھی نیک اعمال میں شامل ہیں، اس پر ابو داود وغیرہ کی نقل کردہ حدیث کو متعارض نہیں کہا جائے گا، جو کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"کیونکہ یہاں یہ احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات کسی عمل کو چاہتے ہوئے بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں آپ کی امت پر یہ عمل فرض نہ ہو جائے"انتہی

" فتح الباری" (2/460)

♦ *پنجم:*
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذو الحجہ کے نو روزے رکھنے والی حدیث ضعیف ہے، جو کہ دلیل نہیں بن سکتی، اس حدیث کی سند میں ھُنیدہ سے مختلف روایات نقل کی گئی ہیں، چنانچہ کچھ اسانید میں ھُنیدہ کی اپنی بیوی سے اور وہ کسی ام المؤمنین سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے۔

اور کچھ میں ھُنیدہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے براہِ راست بیان کرتا ہے۔

اور بعض میں وہ اپنی والدہ سے وہ ام سلمہ سے بیان کرتی ہیں"

دیکھیں: " نصب الرايۃ" (2/157)

بالآخر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے عموم کی وجہ سے ان دنوں میں روزے رکھنے کی شرعی حیثیت باقی رہے گی۔

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :

"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھنا نقل کیا گیا ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عشرے میں روزہ رکھنے کے عمل سے بھی زیادہ مؤکد چیز بیان کی گئی ہے؛ وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ، اور فرمایا: (اللہ کے ہاں ایسا کوئی عمل نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو)صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں !؟ آپ نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! ہاں ایک شخص جو اپنے مال وجان کیساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا)اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین مقام رکھتا ہے۔

جب کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر ا س عشرے میں روزے رکھے ہوں" تو اس بارے میں دو احادیث وارد ہیں، ایک عائشہ سے اور دوسری حفصہ رضی اللہ عنہما سے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: "میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"جبکہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اس عشرے کے روزے نہیں چھوڑتے تھے"

اور جب کسی مسئلہ میں دو احادیث آپس میں متعارض ہوں جن میں سے ایک تردیدپر مشتمل ہو، اور دوسری تائید پر تو تائید کرنے والی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے،
اسی لئے تو امام احمد نے کہا ہے کہ : "حفصہ کی حدیث تائید میں ہے، اور عائشہ کی حدیث تردید میں ہے تو تائید کرنے والی حدیث کو مقدم رکھا جائے گا"

میں آپ کو ایک اصول دینا چاہتا ہوں: "جب کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کوئی سنت ثابت ہو رہی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو اپنا لو، کیونکہ اس پر عمل کرنے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یا آپ کے صحابہ کرام کا اس قول پر عمل بھی تلاش کریں"اس لئے کہ اگر ہم سنت پر عمل کرنے کیلئے یہ شرط لگا دیں کہ جب تک صحابہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اسکے مطابق نہ مل جائے تو تب تک عمل نہیں کرینگے ، تو اس سے ہمیں بہت سی عبادات کو چھوڑنا پڑے گا، لیکن ہمارے پاس الفاظ موجود ہیں جو کہ ٹھوص دلیل بن کر ہم تک پہنچے ہیں اس لئے ہمارے لئے ان الفاظ نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے، چاہے گزشتہ زمانے میں لوگوں نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہے"انتہی

" لقاء الباب المفتوح " (92 /12)

واللہ اعلم .

Zilhijjah ke pehle ashre ke roze

❎❎❎  ضعیف حدیث ❎❎❎                                        🔷   ذی الحجة کے پہلے عشرے کے 9  روزے رکھنے کا بیان                                                                                                                            🔴    بعض ازواج النبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجة  (  کے پہلے عشرہ ) میں نو ( 9 ) روزے رکھا کرتے تھے ۔ (یعنی یکم ذی الحجة سے لے کر نویں ذی الحجة تک)   دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجة کے ( پہلے عشرہ کے )  دس روزے رکھا کرتے تھے ۔۔(یعنی یکم ذی الحجة سے لے کر دس ذی الحجة تک ، اس میں عید کا دن بھی شامل ہے ۔۔ )                                                 ♦⬅   ( سنن نسائی :2376 ، 2420 ، 2421 ، 2422 ، و سنن ابی داود  : 2434 ، و مسند احمد : 5 / 271 , 6 / 288 ، و  الکبری للنسائی : 2681 ، و السنن الکبری للبیھقی : 4 / 284 ، و شعب الایمان للبیھقی : 3754 ، و فضائل الاوقات للبیھقی : 175 ، اسنادہ ضعیف )                             🔶  درج بالا دونوں روایات ھنیدة بنت خالد الخزاعی  روایہ کے مجہولہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ ( تحریر تقریب التہذیب : 4 / 437 )  نیز متساہلین محدثین و متاخرین محدثین کی توثیق باطل و مردود ہے تفصیل کے لئے راقم کی کتاب "  کتاب الضعفاء والمتروکین : صفحہ 63 تا 91 "   پڑھے ۔۔ مزید براں یہ کہ صحیح بخاری وغیرہ کی احادیث میں عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے ۔۔                                                                                                                                                    🔴   تنبیہ :  یہ حدیث صحیح مسلم کی حدیث کے مخالف بھی ہے ملاحظہ فرمائیں :  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (  ذی الحجة کے پہلے ) عشرہ میں  کبھی روزے سے نہیں دیکھا ۔۔                                                                                                                                                 🔵  ( صحیح مسلم : 1176)

Eidul azha ke sahi ahkam

🔴🔴 عیدالاضحی کے صحیح احکام و مسائل 🔴🔴                                                                                              🔶  دوسری قسط  🔶                                                                           🔷  عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت                                                                                         🔴   سورة فجر کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرے کی راتوں کی قسم اٹھائی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :  "  صبح کی قسم اور ( ذی الحجہ کی ) دس راتوں کی قسم اور جفت اور طاق کی قسم اور رات کی جب وہ گزرنے لگے ۔۔  ( الفجر : 1 تا     4 )                                                                                                 🔵   مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ( سورة فجر کی ان آیات میں ) جن دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے ، یہ ذی الحجہ کی اول عشرہ کی دس راتیں ہیں ۔۔ ( یکم ذی الحجہ سے لے کر دس ذی الحجہ تک کی راتیں ہیں )                                                                 ♦ ( تفسیر طبری : 24 / 396 ، اسنادہ صحیح  )                                                                             🔴  سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ذی الحجہ ) کے دس دنوں سے بڑھ کر کسی دن کا عمل افضل نہیں ، لوگوں نے عرض کیا ، کیا جہاد بھی نہیں ?  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جہاد بھی نہیں ، مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلے اور کچھ بھی واپس نہ آے ۔۔                                                                                                                     ♦ (  صحیح بخاری : 969 )                                                                  🔷  یوم عرفہ کی فضیلت                                                                                                    🔴  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ کثرت سے بندوں کو آزاد کرتا ہے ، اس دن اللہ تعالیٰ ( اپنے بندوں کے )  بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان ( بندوں ) کی وجہ سے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے : یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ۔۔                                                                                                                               ♦ ( صحیح مسلم : 1348 )                                                                                                                      🔷  یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی فضیلت                                                                                                                                                                              🔴  سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ ( 9  ذی الحجہ )  کے روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ( اس کے ذریعہ ) گزشتہ ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔۔                                                                                                                                                                                                      ♦  ( صحیح مسلم : 1162 )                                                                                                                                                                                              🔵🔴⬅   جاری ہے  ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔