QURBANI KE AHKAM

*قربانی کے احکام ومسائل*
 
*✍✍✍تحریر:معاذ دانش*

اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36]
"قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے".

*قربانی کا حکم*

قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے استطاعت کے باوجود اس کا ترک کرنا مکروہ ہے.

*قربانی کی حکمت*

اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنے اور عید کے ان ایام میں نادار لوگوں پر کشائش کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے درمیان محبوب شیئ کے خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے قربانی کو مشروع کیا ہے.

*قربانی کےجانور*

شریعت نے نرومادہ کے ساتھ تین قسم کے جانور
1_اونٹ
2_گائے
3_غنم(دنبہ بھیڑ اور بکری)کو مشروع رکھا ہے.
فرمان الہی ہے :وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا  الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ}[الحج: 28]
اور ( قربانی کے ) مقررہ دنوں کے اندر ﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر ( ذبح کے وقت ) ﷲ کے نام کا ذکر کریں ، پس تم اس میں سے خود ( بھی ) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو ( بھی ) کھلاؤ".
قرآن کریم نے "الانعام" کی وضاحت کرتے ہوئے ابل(اونٹ)بقر(گائے)معز(بکری)ضأن(بہیڑ)چار قسم کے جانوروں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے مذکر ومؤنث کو ملا کر "ثمانية أزواج"(جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ )کہا ہے.

*قربانی کے شروط*

1_محدود وقت میں ہو (جو کہ صلاۃ عید سے فراغت کے بعد سے تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہوتا ہے)
2_بہیمۃ الانعام (اونٹ گائے بکری بھیڑ)میں سے ہو
3_قربانی کا جانور حدیث میں مذکور چار مخصوص عیوب سے محفوظ ہو {جس کا ذکر آگے آئے گا}
4_اپنی ملکیت ہو
5_قربانی کا جانور مسنہ (دانتا)ہو

*مسنہ (دانتا)*

مسنہ کہتے ہیں وہ جانور جس کےسامنے کے دودھ کے دو دانت گر چکے ہوں اورعموما یہ تبہی گرتے ہیں جب ان کی جگہ دو چوڑے دانت نکل آتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب درج ذیل عمر کو پہونچ جائےخواہ وہ نر ہو یا مادہ.

*بکری*

بکری ایک سال مکمل کرکے دوسرے میں داخل ہو جائے.

*بہیڑ*

ایک سال مکمل کرکے دوسرے میں داخل ہوجائے.
*گائے*

دو سال مکمل کرکے تیسرے میں داخل ہو جائے

*اونٹ*

پانچ سال مکمل کرکے چھٹے سال میں داخل ہو جائے.
پس اگر کوئی شخص صلاۃ عید کے بعد سے لے کے تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے کے درمیان دن ورات کے کسی بہی حصے میں قربانی کرتا ہے تو وقت کے لحاظ سے اس کی قربانی درست ہوگی اور اگر صلاۃ عید سے کچھ پہلے یا تیرہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے کے بعد کرتا ہے تو وقت کے لحاظ سے اس کی قربانی درست وصحیح نہ ہوگی
اسی طرح اگر کوئی شخص بہیمۃ الانعام (اونٹ گائے بکری بھیڑ) کے علاوہ گھوڑے ہرن یا اس جیسے دیگر جائز جانور کی قربانی کرتا ہے تو درست نہیں ہوگا کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے اور عبادت بلا دلیل جائز نہیں آپ نے فرمایا :" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ".[صحيح مسلم :1718]
اسی طرح بہیمۃ الانعام کے لئے جو عمر متعین کیا ہے اس عمر سے اگر تھوڑا بہی کم ہواتو عمر  کے لحاظ سے اس کی قربانی غیر معتبر ہوگی.

*اگر مسنہ (دانتا)جانور میسر نہ ہو تو چھ ماہ کا دنبہ/بھیڑ کافی ہوگا*

اگر دانتا جانور میسر نہ ہو تو چھ ماہ کا دنبہ یا بھیڑ ہی کافی ہوگا آپ نے فرمایا: " لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً ، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ ".[صحیح مسلم :1963]
دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دنبہ/بھیڑ کا جذعہ ہی ذبح کرلو.

*بھیڑ کا جذعہ*

جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں ماہ میں داخل ہو جائے.

*قربانی کے جانور کن عیوب سے پاک ہوں؟*

قربانی کے جانور قوی وصحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ چار ظاہری عیوب سے پاک ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" لَا يَجُوزُ مِنَ الضَّحَايَا : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي ".[سنن النسائي:4371]
چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے
1_کانا بہینگا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو.
2_بیمار جس کی بیماری واضح ہو.
3_لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو.
4_نہایت کمزور جانور جس جس میں گودا نہ ہو.
البتہ اگر حدیث نبوی میں ذکر کردہ عیوب سے کمتر عیب جانور میں پایا جاتا ہے تو وہ کفایت کرجائے گا کیونکہ ایک روایت میں آپ نے فرمایا چار اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اسے (چار) شمار کیا جو کی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان عیوب کے سوا دوسرے عیوب جو اس سے کمتر ہوں وہ کفایت کرجائیں گے لیکن انسان کے لئے بہتر ہے کہ وہ کامل ترین صحت مند جانور قربان کرے.

*جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اسے چاہئے کہ ناخن اور بال سے باز رہے*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  " إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعَرِهِ، وَأَظْفَارِهِ ".جب تم قربانی کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن (کاٹنے)سے بچے.
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ناخن سے باز رہنے کا معنی یہ ہے کہ وہ ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی توڑے
اور بالوں سے بچنے کا مفہوم  یہ ہے کہ وہ بال مونڈے نہ ہلکے کرے نہ نوچے اور نہ ہی جلا کر اسے ختم کرے"{شرح النووی 138/13}
البتہ اگر کوئی شخص سہوا یا عمدا بال یا ناخن تراش لیا ہو تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے تاہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے اسے توبہ واستغفار کرنا چاہئے.

*مقیم کی طرح مسافر کے لئے بہی قربانی کرنا مسنون ہے*

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَة.
"ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا دن آ گیا، چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کو شریک کیا".
مذکورہ بالا حدیث میں صراحت کے ساتھ حالت سفر میں صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے.

*قربانی میں مشارکت*

اونٹ اور گائے (نرومادہ)میں مشارکت جائز ہے اونٹ میں دس اور گائے میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں.
جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ عَنْ عَشَرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَقَرَةِ عَنْ سَبْعَةٍ [ابن ماجه:3131صحيح]
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آ گئی، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہو گئے

*قربانی کو احسن طریقے سے ذبح کرنا*

قربانی کو جس قدر ممکن ہو احسن طریقے سے ذبح کیا جائے اور اسے آرام پہونچایا جائے فرمان نبوی ہے
" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ".[صحيح مسلم :1955]
"بلا شبہ اللہ تعالی نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض ٹھرایا ہے لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو تم میں سے ایک اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہونچائے".

*ذبح میں احسان کا مفہوم*

ذبح میں احسان کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی کرے اسے ذبح کے لئے گھسیٹتے ہوئے نہ لائے آلہ کو تیز کرلے اسے قبلہ کی طرف متوجہ کرے تسمیہ پڑھے اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ سے تقرب کی نیت رکھے دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح نہ کرے ذبح کے بعد اس قدر چھوڑے رکھے کہ وہ بالکل ٹھنڈا ہوجائے

*ذبیحہ کو آرام پہونچانے کا مفہوم*

ذبیحہ کو آرام پہونچانے کا مفہوم یہ ہے کہ ذبح سے قبل پانی پلائے نرمی کے ساتھ ذبح کی جگہ لائے اور بلا مشقت نرمی سے لٹائے پوری قوت کے ساتھ تیزی سے دھار دار آلہ سے ذبح کرے تاکہ جلد از جلد روح نکل جائے اور جانور تکلیف سے آرام پائے.

*کن لوگوں کا ذبیحہ حلال ہے*

ازروئے کتاب وسنت مسلم اور اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اس کے علاوہ کسی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے
مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث عادل ہو یا فاسق پاک ہو یا ناپاک.
رہی بات کتابی (جو یہود و نصاری کی طرف منسوب ہو) کی تو اس کا ذبیحہ حلال ہے اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ؕ وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ ۪ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ۫[المائدة:5]اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے.

*مسلم وکتابی کے سوا کسی قصائی کا ذبیحہ حلال نہیں*

مسلم وکتابی کے علاوہ کسی قصائی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے اس لئے وہ علاقے جہاں قصائی سے ذبح کرایا جاتا ہو وہاں کسی مسلم قصائی ہی کا انتخاب کرنا چاہئے اگر نہ مل سکے تو کسی کتابی کو تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ان کے علاوہ دیگر غیر مسلم قصائی یا افراد کا ذبیحہ شریعت میں حلال نہیں ہے.

*جانور کون ذبح کرے*

مختلف دلائل (بخاری :5558,مسلم:1218)کی روشنی میں اپنی قربانی خود ذبح کرنا مستحب اور کسی دوسرے کو ذبح کرنے میں اپنا نائب بنانا جائز ہے.

*کیا عورت ذبح کر سکتی ہے؟*

عورت قربانی کے جانور ذبح کرسکتی ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے "باب من ضحية غيره "کے تحت ذکر کیا ہے"وَأَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ".کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں.

*قربانی کی دعا*

مسنون طریقہ یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت "بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،[صحیح بخاری:5565]پڑھے.
یا "بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وعن اهل بيتي[سنن ابي داؤد:2810صحيح]
یا "بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فلان وآل فلان"[صحيح مسلم:1967]کہے.
مذکورہ بالا ساری دعائیں مختلف موقعے سے آپ سے ثابت ہیں.

*قربانی کے گوشت کا مصرف*

کتاب وسنت کی رو سے قربانی کے گوشت میں سے خود بہی کہائے اور فقیروں محتاجوں کو بہی کھلائے کوئی پابندی نہیں کہ کس قدر خود کھائے اور کتنا فقیروں کو دے البتہ اسے فروخت نہ کرے فرمان الہی ہے
"فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ ".[الحج:36]
اسے(خود بھی)کھاؤاور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال  کرنے والوں کو بھی کھلاؤ".
شروع میں آپ نے مصلحت کے تحت گوشت کی ذخیرہ اندوزی سے منع کیا تہا تاہم جب اس کی ضرورت نہ رہی تو آپ نے ذخیرہ اندوزی کی اجازت دے دی فرمان نبوی ہے:"فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَأَطْعِمُوا، وَادَّخِرُوا "[سنن ترمذی:1510صحیح]
"سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور  ( گوشت )  جمع کر کے رکھو“.
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کھانے والے گوشت کی مقدار متعین نہیں قربانی کرنے والا شخص جس قدر چاہے اس میں سے کھائے خواہ وہ مقدار زیادہ ہو البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس قدر تناول نہ کرے کہ اطعموا (کھلاؤ) والی بات ہی ختم ہوجائے.[نیل الاوطار: 22/5]

*کیا غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے*

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے.فرمان الہی ہے
"فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ ".[الحج:36]
اسے(خود بھی)کھاؤاور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال  کرنے والوں کو بھی کھلاؤ"
.
*قربانی کی کھال کا مصرف*

قربانی کی کھال کا بہی وہی مصرف ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے کیونکہ وہ بہی اسی کا ایک حصہ ہے خواہ اسے خود ہی استعمال کرے مثلا چٹائی مصلی چمڑے کا تھیلا ڈول یا مشکیزہ وغیرہ بنا لے یا صدقہ کردے یا دوست واحباب کو ہدیہ کردے.

*‏‏‏‏‏قصائی کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ نہیں دینا چاہئے*

قصائی کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ نہیں دیا جائے گا البتہ قربانی کے علاوہ علحدہ طور پر جو اجرت ہو دیا جاسکتا ہے علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا"". [صحيح بخاري:1717]
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کریں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی ہر چیز گوشت چمڑے اور جھول خیرات کر دیں اور قصائی کی مزدوری اس میں سے نہ دیں.

*حاملہ (گابھن)جانور کی قربانی*

حاملہ (گابھن)جانور کی قربانی صحیح ودرست ہے اس میں کوئی حرج نہیں
‏‏‏‏‏‏
*خصی جانور کی قربانی*

خصی جانور کی قربانی جائز ودرست ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ہے

*غیر خصی جانور کی قربانی*

غیر خصی جانور کی قربانی بہی جائز ودرست ہے اور آپ کے عمل سے بہی ثابت ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں َ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ يَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْكُلُ فِي سَوَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ.[سنن ابوداؤد:2796صحیح]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینگ دار غیر خصی مینڈھے کی قربانی کرتے تھے جو دیکھتا تھا سیاہی میں اور کھاتا تھا سیاہی میں اور چلتا تھا سیاہی میں  ( یعنی آنکھ کے اردگرد ) ، نیز منہ اور پاؤں سب سیاہ تھے۔

*بھینس کی قربانی*

قربانی کےلئے وہی جانور مشروع ہیں جن پر "بهيمة الأنعام "کا اطلاق ہوتا ہے جن میں اونٹ گائے بھیڑ بکری شامل ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے انہیں جانوروں کی قربانی کا قولی وعملی ثبوت ملتا ہے لہذا بھینس کو محض بقر کی جنس قرار دیتے ہوئے اسے قربانی کے جواز کی دلیل قرار دینا _واللہ اعلم _درست نہیں ہے.

*ھندوستان کے بعض علاقوں میں گائے کی قربانی کا مسئلہ*

شریعت میں گائے کی قربانی کا واضح ثبوت موجود ہے شرعی نقطہ نظر سے اس میں کوئی حرج نہیں بعض لوگ گائے کے گوشت میں بیماری والی احادیث پیش کرکے اس سے احتراز کی تلقین کرتے ہیں تاہم وہ ساری روایات ضعیف ہیں البتہ ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس سے احتراز کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ جانور ایک خاص مذہب کے نزدیک مقدس سمجھی جاتی ہے جسے ذبح کرنا ان کی تکلیف کا باعث ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مختلف قسم کے فتنہ وفساد رونما ہوتے ہیں لہذا مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ حالات کے ساز گار ہونے تک اس سے پرہیز کیا جائے اس سے نہ تو دینی حمیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی قوانین اسلام کی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ گائے کا ذبح کرنا محض حلال اور مباح کی حیثیت رکھتا ہے نہ ہی وہ واجبات کے درجے میں ہے اور نہ ہی مستحبات کے بلکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا شکار حلال ہے اب اگر کوئی شکار کرتا ہے تو قابل مدح نہیں اور اگر شکار نہیں کرتا ہے تو قابل مذمت نہیں.

*ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کا حکم*

قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا
یا تو مردہ ہوگا
یا زندہ ہوگا
اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا کہانا حلال ہوگا اس کی ماں کا ذبح کرنا بچے کے ذبح کرنے سے کفایت کرے گا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَنِينِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏   كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُسَدَّدٌ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَنْحَرُ النَّاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ وَالشَّاةَ فَنَجِدُ فِي بَطْنِهَا الْجَنِينَ أَنُلْقِيهِ أَمْ نَأْكُلُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ.[ابوداؤد :2827حسن لغیرہ]
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اگر چاہو تو اسے کھا لو۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے" ۔پیٹ میں موجود بچے کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے
اگر وہ زندہ ہے تو اسے ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ اب وہ مستقل ایک جان کی حیثیت رکھتا ہے.
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :"إن كان حيا فلا بد من زكوته لانه نفس أخرى" [المغنی :13/310]
"اگر وہ زندہ نکلے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے".

*ایک جانور اہل خانہ کے لئے کافی ہے*

بهيمة الأنعام (اونٹ گائے بھیڑ بکری) میں سے کوئی بہی ایک جانور اہل خانہ کے پورے افراد کے لئے کافی ہوگا اگرچہ اہل خانہ کی تعداد سو سے بہی زائد ہو اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کرام کا عمل رہا ہے چنانچہ ابو ایوب انصاری رضی عنہ فرماتے ہیں"كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى".[سنن ترمذی: 1505صحيح]
"عہد نبوی میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تہا وہ اسے کھاتے تہے کھلاتے تہے حتی کہ لوگوں نے تکبر شروع کردیا تو اس طرح ہوگیا جو آج تم دیکھ رہے ہو".

*اہل خانہ سے مراد*

اہل خانہ سے مراد وہ تمام افراد جن کا چولہا ایک ہو اور قربانی دینے والا ان سب کے خرچ کا ذمہ دار ہو.

*قربانی سے متعلق ضعیف و من گھڑت روایات*

1⃣ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ فَقَالَ    ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ   ،‏‏‏‏ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْقِلُ،‏‏‏‏ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ،‏‏‏‏
جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی الله عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیا یہ واجب ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے، اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے[سنن ترمذی:1506ضعیف]
2⃣ ‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ .[سنن ابن ماجه:3127ضعيف جدا]
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی  لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  بھیڑ میں  ( بھی )  ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے.
3⃣ عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا، ‏‏‏‏‏‏أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَظْلَافِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْعَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا .[سنن ابن ماجه:3126ضعيف]
عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  یوم النحر  ( دسویں ذی الحجہ )  کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت  ( جوں کا توں )  آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام پیدا کر لیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو.
4⃣ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي [سنن ترمذي :1507ضعيف]
ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ  ( ہر سال )  قربانی کرتے رہے۔
5⃣ عَنْ حَنَشٍ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا هَذَا ؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ.[سنن ابي داؤد :2790ضعيف]
حنش بن المعتمر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟  ( یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں )  تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے  ( بھی )  قربانی کرتا ہوں۔
اللہ رب العالمین ہم سب کو طریقہ نبوی کے مطابق قربانی کرنے کی توفیق بخشے آمین

Surat 49 13

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

[Tafseer As-Saadi 49:13]

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ

لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے نبی آدم کو ایک ہی اصل اور ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے تمام بنی آدم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ تمام نبی آدم، حضرت آدم اور حوا ( علیہ السلام) کی طرف لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نسل میں سے بیشمار مردوں اور عورتوں کو پھیلایا، پھر ان کو قبیلوں اور گروہوں میں تقسیم کیا، یعنی چھوٹے بڑے قبیلوں میں تاکہ وہ ایک دوسرے کی پہچان رکھیں کیونکہ اگر ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت کو قائم رکھے تو وہ تعارف حاصل نہیں ہوسکتا جس پر ایک دوسرے کی مدد، باہمی تعاون، باہمی توارث اور عزیز و اقارب کے حقوق کا قیام مرتب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو قوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تاکہ وہ امور حاصل ہوسکیں جو باہمی تعارف اور الحاق نسب پر موقوف ہیں۔ مگر عزت کا معیار تقویٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ شعار ہے اور یہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور گناہوں سے رکنے والا ہے۔ وہ شخص سب سے زیادہ عزت والا نہیں جس کا کنبہ قبیلہ سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بلند حسب و نسب رکھتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے وہ جانتا ہے کہ ان میں کون ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ سے اپنے ظاہر میں ڈرتا ہے نہ باطن میں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ایسی جزا دیگا جس کا وہ مستحق ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسب و نست کی معرفت مطلوب اور مشروع ہے کیونکہ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قوم اور قبیلے بنائے۔

Mishkat ul Masabeeh Hadees # 4893

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَي النَّاس أكْرم؟ فَقَالَ: «أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ» . قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ: «فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ» . قَالُوا: لَيْسَ عَن هَذَا نَسْأَلك. قَالَ: «فَمِمَّنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟» قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا  . مُتَّفق عَلَيْهِ

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا : لوگوں میں سے زیادہ معزز شخص کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز شخص وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے ۔‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب معزز شخص یوسف ؑ اللہ کے نبی ، اللہ کے نبی کے بیٹے ، اللہ کے نبی کے پوتے ، اللہ کے خلیل (ابراہیم ؑ) کے پڑپوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ہم اس کے بارے میں آپ سے دریافت نہیں کر رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم عرب قبائل کے متعلق مجھ سے دریافت کر رہے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہی تمہارے اسلام میں بہتر ہیں بشرطیکہ وہ (آداب شریعت کے متعلق) سمجھ بوجھ حاصل کریں ۔‘‘     متفق علیہ ۔
Sahih Hadees

EID UL AZHA K FAZAIL WA MASAYEL

❗Topic Number : 91❗

🍀 EID-UL-AZHA K FAZAIL WA MASAYEL
〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Part - 1 to 8

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

As salamu Alekum Dosto...

💠 Dhul-hijjah islami saal ka 12wa mahina hai, waise toh saara mahina khair o barkat wala hai, lekin iske pahle 10 dino Ko khususi sharf haasil hai.

Daleel ⤵

🔘 Hz ibn Abbas (ra) bayan karte hain ke Nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne irshad farmaya:-

” ashrah dhul hijjah ke amaal e swaaleh allah taala ko jis qadr mahboob wa pasand hain, dusre dino ke aamal is qadr mahboob nahi,
sahaba kiram (ra) ne arz kiya:-

” aiy allah ke rasool nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ! Dusre dino ka jihad bhi ?

Aap nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne farmaya:-” dusre dino ka jihad bhi is qadr mahboob nahin, haan mujaahid apni jaan aur maal allah taala ke raaste me qur’ban karde toh aisa jihad afzal aur pasandeedah ho sakta hai “

📚Bukhari jild 2 Hadees 969
📚 Abu dawood jild 1;332  miftah al haja sharah
📚 ibn majah
📚 baihaqi jild 4/285
📚mishkat jild 1/127,128

💠 TAKBEERAAT 💠

Dhul-hijjah ka chand dekhte hi takbiraat kahni shuru kar deni chahiye, chalte firte, uthte baithte takbeeraat kahte rahna chahiye.
Daleel ⤵

🔘 Hz Abullah bin umar (ra) aur hz abu hurairah (ra), dhul hijjah ke pahle 10 dino me jab bazaar ki taraf tashreef le jaate toh (chalte firte) takbeerein kahte aur log bhi unke saath takbeerein kahte"

📚Bukhari jild 1/132

💠TAKBEERAAT KE ALFAAZ 💠

“  allahu akbar, allahu akbar, la illaha illah, wallahu akbar wallahu akbar wallilahil hamd , allahu akbar allahu akbar allahu akbar kabeera “

📚dare kutni jild 2/50

💠 HAJAAMAT 💠

🔘 Jis shakhs ki taraf se qurbani karni ho toh us shakhs ko chahiye ke wah ashrah dhul hijjah (1 dhul hijjah tareekh se eid ki namaz tak ) ke dauraan apni hajaamat na banwaaye, dhul hijjah ka chand 🌙nazar aane se pahle apni hajaamat wagerah banwa sakta hai, kyonke qurbani karne wale ke mutaallik hai.
Daleel ⤵

🔘 ummul momineen hz umme salma (ra) bayaan karti hain ke nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne farmaya:-”

jis shakhs ke paas qurbani ka jaanwar ho, aur wah usko qurbani ke din  qurbani ke liye zibah karna chaahta hai toh usko chahiye ke jab se dhul hijjah ka chand nazar aajaye toh wah apne baal aur naakhun wagerah na katwaaye (yani hajamat na karwaaye) yahan tak ke wah qur’bani kare ”

📚 Muslim jild 2/140
📚 Abu dawood jild 2/30
📚 Baiheqi jild 9/266 
📚Miskaat jild 1/127

💠 jis shakhs me qurbani karne ki taaqat nahi toh usko bhi chahiye ke wah bhi ashrah dhul hijjah me hajaamat na banwaaye Eid ke baad hajaamat banwaaye toh allah taala usko apni rahmat se qurbani ka sawab inaayat farma dega.
Daleel ⤵

🔘 jab ek aadmi ne nabi e akram sallalaho alaihi wasallam se arz kiya ke mere paas qurbani ke liye toh koi jaanwar nahin, lekin mere paas ek doodh denewala jaanwar hai  kya main uski qurbani kar lun ?

Toh nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne farmaya:-

nahin ! Balke tu eid ki namaz ke baad apne baal aur naakhun aur moochhen katwa aur apne zer e naaf baal moondh le, bas allah taala ke nazdeek yahi teri poori qurbani hai “

📚 Abu dawood jild 2/29
📚 Nisaai jild 2/201

💠 lihaaza qurbani ki poori iste’taaat na Rakhne waalon ki tarah dhul hijjah ka chaand dekh kar hajaamat na karwaayen, eid ki namaz ke baad hajaamat karwaayen...

💠ARFAH KE DIN KA ROZA💠

Dhul hijjah ki 9wi taareekh ko roza rakhne ki bhi badi fazilat hai.
Daleel ⤵

🔘 Nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne farmaya:-

” mujhe ummeed hai arfah ke roze ke sawaab ki allah taala ek saal ghujashta aur ek saal aainda ke gunaah maaf kar dega “

📚muslim jild 1/367
📚tohfa ahwazi jild 2/55-56
📚abu dawood jild 1/329
📚Baiheqi jild 2/283

💠EIDAIN KE DIN KHAANA💠

Eid ul fitr ki namaz padhne ke liye kuch kha pee kar jaana chaahiye, aur eid ul adha ke din eid ki namaz padhkar kuch khaana peena chahiye. Daleel ⤵

🔘 Hz abdullah bin bareeda (ra) apne baap se riwayat karte hain, wah kahte hain ke nabi e akram sallalaho alaihi wasallam eid ul fitr ke din (eid ul fitr ki namaz padhne ke liye) nahin nikalte they yahan tak ki kuch khaa pee lete, aur eid ul adha ke din nahin khaate they, yahan tak ki eid ki namaz padh lete “

📚tohfatul ahwazi jild 1/380
📚darimi jild 1/314
📚Baihaqi jild 3/283

💠EIDGAAH KI TARAF PAIDAL JAANA💠

Eidgaah ki taraf paidal jaana sunnat hai.
Daleel ⤵

🔘 Hz ali (ra) farmate hain ke:-

"ye sunnat hai ke eidgaah ki taraf paidal jaana chahiye aur ( eid ul fitr ki taraf ) jaane se pahle kuch kha pi lena chahiye “

📚tohfatul ahwazi jild 1/373

⛔ sunnat yahi hai ke eidgaah ki taraf paidal chalkar jaaye aur waapas bhi paidal chalkar aayen,
haan ! Agar kamzor aur mareez hai, ya eidgaah door faasle par hai, itna chalne ki taaqat nahi toh phir sawaari par bhi aana jayez hai.

agarchah imam baiheqi ne abu dawood ke hawale se likha hai ke waapsi par sawaar ho kar aasakta hai

📚Baiheqi jild 3/281

💠 TAKBEERAAT 💠

Eidgaah ki taraf jaate waqt aur Waapas aate waqt  jahar ( buland awaz ) se takbeeraat padhni chahiye.
Daleel ⤵

🔘 Hz nafe (ra) riwayat karte hain , hz ibn umar (ra) se ke:-” ibn umar (ra) eid ul azha aur eid ul fitr ke din jab eidgah Ki taraf jaate toh buland awaaz se takbeerein kahte, yahan tak ke eidgaah me pahunch jaate phir eidgah me bhi pahunch kar takbeerein kahte, yahan tak ke imam sahab aajaate, eid ki namaz padhaane ke liye “

📚(daar e kutni jild 2/45)

💠AURTON KO EIDGAH ME LE JAANA💠

Aurton ka mardon ke saath eidgah me jana sunnat hai.
Daleel ⤵

🔘 Is bare me riwayat milti hain jinka khulasa ye hai
" Hz umme atiya (ra) bayan karti hai ke nabi e akram sallalaho Alaihi wasallam ne hamen is baat ka huqm diya hai ke :-”
ham apni naujawaan aur haiz waali aur pardah naseeh khwaateen ko eid ul fitr aur eid ul adha ke mauqe par eidgaah ki taraf le jaayen (taake wah eid ki namaz ada karen ) aur musalmano ki duaon aur bhalaai me shareek hon,”

haan haiz wali aurtein namaz se alaiheda (alag) rahen,hz umme atiya (ra) kahti hain ke maine arz kiya:-

aiy allah ke rasool ! Kisi ke paas chadar nahin hoti ?”

aap nabi e akram sallalaho alaihi wasallam  ne farmaya:
uski ( musalman saheli, padosi ) bahem usko apni chadar pahna de “

📚Bukhari pg133
📚muslim jild1/291
📚tohfatul ahwazi jild 1/379
📚abu dawood jild 1/41
📚nisaai jild 1/131
📚darimi jild 1/314 📚baiheqi jild 3/306

➡ Note : in Hadees se Aurto ko eidgah le jane ki ahmiyat maloom hoti h kun aap sallallahu Alewasallam ne Haiz wale aurte yaha tak jis k paas chadar nahe us ko tak apni sahele ki chadar m aane ka hukm diya.

💠EIDAIN KI NAMAZ MASJID ME💠

Kisi gharz ki wajah se eidain ki namaz masjid me bhi padhi ja sakti hai.
Daleel ⤵

🔘 Hz abu hurairah (ra) bayaan karte hain ke ek dafa eid ke din baarish hogayi Toh baarish ki wajah se nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne eid ki namaz sahaba kiram (ra) ko masjid me padhaai.

📚Abu dawood jild 1/164

📚Miftah al hajah sharah ibn majah pg 94

💠MUBARAKBAAD💠

🔘 Eid ki namaz ke baad jab aapas me ek dusre se milein toh mubarakbaad in alfaz ke saath den ⤵

” taqabbalaho wa minna wa minkum”

📚 Majmua ul zawaid jild 2/206

💠RAASTA BADALNA💠

Eid ki namaz se wapsi par raasta badal kar aana chahiye, ye sunnat hai.
Daleel ⤵

🔘 Hz jabir (ra) bayan karte hain ke jab eid ka din hota toh nabi e akram sallalaho alaihi wasallam jab eidain ke din (eid ki namaz ke liye) nikalte toh wapsi par dusre raaste se aate.

📚tirmizi jild 1/97

🔘 Hz ibn umar (ra) se riwayat hai ki nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ek raaste se gaye aur dusre raaste se waapas aaye

📚Abu dawood jild 1/163
📚Baiheqi jild 3/309

💠EID KI NAMAZ QAZA💠

Agar kisi wajah se namaz mein shareek na ho saka aur eid ki namaz jamat se na ada ho saki toh akele do rakat namaz padh  Leni chahiye
Daleel ⤵

🔘 Hz ata (rh) bayaan karte hain ke:-” jab kisi ki eid ki namaz jaati rahe  (toh wah eid ki namaz ki tarah ) do rakatein padh le “

📚Bukhari jild 1/134

🔘 Baiheqi me hai ke hz anas (ra) se jab imam ke saath eid ki namaz faut ho jaati toh wah apne ghar walon ko jama karke eid ki namaz do rakat jamat se padh lete,

➡ 👆isi par imam bukhari ka qaul hai aur yahi fatawa hai imam shafai aur imam malik ka “

📚Nusratul bari 4/111

💠 QUR’BANI KE JANWAR AUR UNKI UMAR 💠

💠QURBANI KI TAAQEED💠

Allah taala taufeeq de toh qurbani zaroor karni chahiye aur uska ajar o sawab haasil karna chahiye, kitni badi khush naseebi hai ke har baal ke badle neki milegi, lekin kitna badnaseeb hai wah insan ke jo taaqat rakhne ke ba’wajood qur’bani nahi karta❗

💠QUR’BANI KE JANWAR AUR UNKI UMAR💠

Qurbani , oont , gaaye, bakri, aur bhedh (nar aur maada ki), ki jaati hai.

Pahle 3 jaanwaron (🐪Oont, Gaaye🐄, Bakra🐏) ka do daanta (One year old) hona zaruri hai. agar  mazkoorah 3 jaanwar do daanta na mil saken TOH bhedh, dumba, ki bhi qurbani ki ja sakta hai.
Daleel ⤵

🔘 Hz jaabir (ra) se riwayat hai ke nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne farmaya:

” zibah karo, qurbani me Jaanwar magar do daanta, albatta jab tumpar aisa jaanwar milna mushkil ho jaaye toh tum qurbani ke liya dumba ka jaz’a zibah kar lo “

📚Muslim jild 1/155
📚Abu dawood jild 2/30
📚Nisai jild 2/203
📚Miftah al hajah 234
📚Baiheqi 269

➡ Note : Hamre mashre m ek Galat fahmi ye hai k kuch log kahte hai k Agr Bakra 1 saal ka ya 2 dantaa na ho lekin 1 saal jaisa Nazar aata hai to is ki Qurbani jayaz hai Lekin ye Hadees k khelaf Amal hai Agr Aisa Janwar na mile jo 1 saal ka ya 2 daanta ho tab Dumba Zubah kar sakte hai Bakra Nahe.

Wallahu Aalam...

💠JANWAR M AYEB💠

Qurbani ka jaanwar khoob mota taaza aur tandurust aur be’aib hona chahiye aur qurbani ke janwar me aisa aib na ho jiski wajah se unki qurbani durust na ho.
Daleel ⤵

🔘 Hz bara bin ajib (ra) marfu bayan karte hain k nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne irshad farmya:

” ye jaanwar qurbaan na kiye jaayen ⤵

1⃣ langda jaanwar, jiska langdapan zaahir ho,

2⃣ kaana, jiska kaanapan zaahir ho,

3⃣ jiski bimari zaahir ho,

4⃣ kamzor aur laaghar jiski haddiyon me gooda na ho,”

📚Tirmizi jild 1/216
📚Abu dawood jild 2/31
📚Nisaai jild 2/202

🔘 Hz ali (ra) bayan karte hain, nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne hamen huqm diya Hai ke:
” ham (qurbani ke janwar ki, aankh aur kaan achhi tarah dekh len aur (ye janwar) qurban na karen ⤵

5⃣ jiske kaan ooper ki taraf kate hue hon,

6⃣ jiske kaan neeche ki taraf kate hue hon,

7⃣ jiske kaan lambaai ki taraf chire hue ho,

8⃣ jiske kaan me gol suraakh ho, “

📚Tirmizi jild 1/216,
📚Abu dawood jild 2/32,
📚Nisaai jild 2/202,
📚Mishkaat jild 1/128

🔘 Hz ali (ra) bayan karte hain ke:-” nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne hamen mana kiya hai ke (ye janwar) qurbani karen ⤵

9⃣ toote hue seengh waala

🔟 kate hue kaan waala “

📚Miftah al haja 234,
📚Mishkat jild 1/128,
📚Abu dawood jild 3/32

🔘 Nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne (in janwaron ki qurbani karne se mana kiya hai) ⤵

1⃣1⃣ jiska kaan ukhaad diya gaya ho, aur uska sooraakh baaqi ho,

1⃣2⃣ jiska seengh jadh se nikal gaya ho,

1⃣3⃣ jiski aankhon ki roshni khatm ho gayi ho,

1⃣4⃣ itna kamzor ke rewad ke saath chalne ki bhi usme taqat na ho,

1⃣5⃣ is qadr dubla ke haddiyon me gooda na ho, ya paaon toot jaane ki wajah se chal na sake,

🔘 Ek Aur rewayta m In Janwaro ki bhe Qurbani Jayaz nahe ⤵

1⃣6⃣ wah jaanwar jiske khujli ho,

1⃣7⃣ wah jaanwar jiska than (breast) kata hua ho “

📚Abu dawood jild 2/31
📚Majmua al zawaid jild 4/19

💠BAAD ME AIB KA PAIDA HONA💠

Qurbani ka janwar tandrust aur be’aib hona chahiye, baaz auqaat aise hota hai ke qurbani ka jaanwar khareedte waqt sahih tha, lekin baad me usme koi nuqs paida ho jaata hai, jabke qurbani ke liye khareedte waqt wah be’aib tha,

iske mutaalliq Daleel⤵

🔘 Hz abu saeed khudri (ra) bayan karte hain ke ham ne qurbani ke liye ek mendha khareeda, toh  bhediya (deer) uske sureen aur kaan le gaya, hamne iske baare me nabi e akram sallalaho alaihi wasallam se poocha,
nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne Farmaya:

”uski qurbani karo “

📚miftah al hajah sharah ibn majah pg 234

➡ Lekin ❗ye riwayat Zayeef hai, iske elawa is riwayat ko baiheqi aur ahmad ne bhi riwayat kiya hai,

⛔ baaz ulema ka khayaal hai aur unhone isse istadlal kiya hai ke:

” takhshees ke baad agar nuqs paida ho jaaye toh koi harz nahin, “

lekin baaz ulema isse daleel pakadna durust nahi samjhte ke ye riwayat Zayeef hai.

☑ isliye bahtar yahi hai ke jaanwar badal kar  be’aib tandarust khareed kar qurbani kiya jaaye,

⛔ haan itni gunjaish malum hoti hai ke :

” aadmi ghareeb hai aur jaanwar badalne ki taaqat nahi rakata toh wah qurbani kar le, kyonke na karne se bahtar hai “

💠MAYYIT KI TARAF SE QUR’BANI💠

🔘 Ek sahabe se riwayat hai, wah kahte hain ke maine hz ali (ra) ko dekha wah  do dumbe zibah karte they, maine kaha :

” ye kya hai ( yani tum do dumbe zibah karte ho ) ?”
toh unhone kaha:

” nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ne mujhe farmaya ke main unki taraf se qurbani karun toh maine unki taraf se bhi qurbani karta hun “

📚Abu dawood jild 1/29
📚Tirmizi pg 180

➡Note :-  imam tirmizi ne ye riwayat ba’alfaz deegar apni sunan me pesh ki aur saath ye bhi likhe hain

” ye hadith ghareeb hai, isko ham nahin jaante❗

➡ magar shareek ki hadith se aur baaz ahle ilm ne rukhsat di hai ke qurbani ki jaaye mayyid ki taraf se, aur baaz ne nahin rukhsat di”❗

☑ ➡ Hz abdullah bin mubarak kahte hain :
” ke meri taraf ye ziyadah mahboob hai ke mayyit ki taraf se sadqah kiya jaaye aur qur’bani na kiya jaaye, agar Qurbani ki jaaye toh usse kuch na khaaye, tamaam ka tamam sadqah kar diya jaaye, “
mazeed tafseel ke liye dekhen.

📚tohfatul ahwazi jild 2 pg 354

💠 SAARE GHARWAALON KI TARAF SE EK JANWAR KAAFI HAI 💠

Is hadith ke mutaallik.
Daleel ⤵

🔘 Hz ata bin yasaar riwayat karte hain ke maine hz abu ayyub ansari (ra) se poocha:
” ke tum nabi e akram sallalaho alaihi wasallam ke zamane me kaise qur’baaniyan karte they❓”
toh kaha ke:

” ek admi qurbani karta tha ek bakri ki apni taraf se aur apne ahle khaana ki taraf se wah khud isme se khaate aur auron ko bhi khilaate “

📚tirmizi jild 1/217,
📚Miftah al haja pg 234

💠OONT AUR GAAYE ME HISSE💠

TO BE CONTINUE ...
〰〰〰〰〰〰〰〰〰

📢 Please Forward to All

Eid ke namaz

*🌹آج کا درس حدیث🌹*
*صحیح بخاری: کتاب: عیدین کا بیان*
*((باب: امام کے آگے آگے عید کے دن عنزہ یا حربہ لے کر چلنا))*
*CHAPTER:* To put the Anaza (spearheaded stick) or Harba in front of the Imam on Eid day.

*《حدیث نمبر: 973》*
🌹📖 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ،‏‏‏‏ وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا".
اردو:
ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا. انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا (ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو) آپ (ﷺ) کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ (ﷺ) کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ (ﷺ) اس کی آڑ میں نماز پڑھتے.
English:
Narrated Ibn `Umar: The Prophet used to proceed to the Musalla and an 'Anaza used to be carried before him and planted in the Musalla in front of him and he would pray facing it (as a Sutra).

*🥀فوائد:🥀*
🖋 شیخ الحديث مولانا محمد داؤد راز رحمه الله تعالى
✍ تشریح اوپر گزر چکی ہے.
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت (ﷺ) عیدین کی نماز جنگل (میدان) میں پڑھا کرتے تھے. پس مسنون یہی ہے جو لوگ بلا عذر بارش وغیرہ مساجد میں عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں وہ سنت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں.
والله تعالى أعلم.💐💎

Surah baqarah 270

*🌹آج کا سبق، ترجمه و تفسير قرآن مجيد🌹*
*((سورة البقرة مدنية: آیت نمبر: 270))*
🌹أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.🌹
🌹بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.🌹
🌹📖 وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَةٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُهٗ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ.
اردو:
اور تم جو بھی خرچ کرو، کوئی خرچ، یا نذر مانو، کوئی نذر تو بیشک اللہ اسے جانتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں.
English:
Whatever charity you give, or a pledge you fulfill, Allah knows it. The wrongdoers have no helpers.

*🥀تفسیر القرآن الكريم🥀*
🖋 فضيلة الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد (بھٹوی) حفظه الله تعالى
✍ "وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ ۔۔۔": "نذر" کا معنی ہے: "اپنے آپ پر وہ چیز فرض کرلینا جو فرض نہیں تھی"، مثلاً کوئی نفل نماز یا نفل روزہ یا صدقہ یا نفل حج وغیرہ.
✍ اس کی دو قسمیں ہیں:
ایک نذر مطلق   اور  دوسری نذر معلق.
✅ نذر مطلق یہ ہے کہ کوئی شرط لگائے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ پر کوئی نیکی لازم کرلے، مثلاً یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے ہمیشہ یا اتنے دن تہجد پڑھوں گا، یا عمرہ کروں گا.
✅ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے.
✅ نذر معلق یہ ہے کہ کسی شرط کے ساتھ نذر مانے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں نیکی کروں گا، مثلاً صدقہ یا نوافل وغیرہ.
✅ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ آدمی کی شرط سے مستغنی ہے، وہ اس کی وجہ سے اس کی مراد بر نہیں لائے گا. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”نذر نہ مانا کرو، اس لیے کہ نذر تقدیر میں طے شدہ کاموں میں کچھ فائدہ نہیں دیتی، صرف اتنا ہوتا ہے کہ بخیل سے مال نکل آتا ہے“. [مسلم، النذر، باب النھي عن النذر۔۔: ١٦٤٠، عن أبي هریرۃ (رضي الله عنه) د]
✅ البتہ اگر وہ کام ہوجائے تو نذر پوری کرنا پڑے گی.
✅ گناہ کے کام کی نذر پوری کرنا جائز نہیں.
✅ اگر نذر پوری نہ کرسکے تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا جو وہی ہے؛ جو قسم کا کفارہ ہے. (دیکھیے سورة المائدة (٨٩).
✍ "فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ ۔۔۔": یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے. اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریا کار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہو سکے گی.
والله تعالى أعلم.💐💎