شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں چودویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
چودہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
___________________

*متعہ کے جواز پر شیعی دلائل اور ان کا رد*

*محترم قارئین!* رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں:

*شیعی دلیل نمبر 1:*
اللہ کا فرمان ہے:
"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ" (النساء:24)
ترجمہ: "پس ان عورتوں میں سے جس سے بھی تم فائدہ اٹھاؤ تو ان کا مقرر کیا ہوا معاوضہ انہیں دے دو"...
شیعوں کا کہنا ہے کہ: "اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے....

*دلیل نمبر 1 کا رد:* پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، جبکہ اِس آیت میں مرد کے لئے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے... مزید یہ کہ اللہ نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے، اور حدیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں...

دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے، اللہ نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے...
"یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" (الأحزاب 50)
ترجمہ: "اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ کے لئے آپ کی ان بیویوں کو حلال کیا ہے جنہیں آپ نے ان کی اجرت (مہر) دے دی ہے"...
اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے...

تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ "یہ آیت منسوخ ہے"... اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لئے اللہ نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے..... اور اس تعلق سے ہم نے کئی دلائل کا تذکرہ قسط نمبر 12 میں کیا تھا، قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں...

*شیعی دلیل نمبر 2:* "بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں"...

*دلیل نمبر 2 کا رد:* روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں... ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں... یعنی کہ میٹھا میٹھا گپ، کڑوا کڑوا تھو...
رہی بات ان صحابہ کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لئے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا...
جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں... آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ: "اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! ذرا ٹھہرو! بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا" (مسلم 1407)

*محترم قارئین!* چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں... جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے... فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے:

*دلائل قرآن سے:*

1- سورۃ النساء آیت نمبر 25
2- سورۃ النور آیت نمبر 33
اور دیگر دوسری آیات

*دلائل سنت مطہرہ سے:*

1- صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407
2- صحيح مسلم 1406
3- تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154
4- ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318
5- صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022
6- صحيح مسلم 1405
7- صحيح بخاری 4216
8- صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154
9- صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کے چند چیدہ چیدہ عقائد"

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں تیرہویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
تیرہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
____________________

*محترم قارئین!* پچھلی گفتگو میں ہم نے "متعہ کی شرعی حیثیت" اور "شیعوں" کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات کا تذکرہ کیا تھا... اب ان شاء اللہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شیعوں کی نظر میں "متعہ" کی فضیلت اور اس کے جواز پر ان کی دلیلیں نیز ان دلیلوں کا قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم رد کرنے کی کوشش کریں گے....

*"متعہ" کا مقام شیعوں کی نظر میں*

"متعہ" یعنی زناکاری کو شیعہ نماز، روزہ اور حج سے بھی افضل عبادت مانتے ہیں، جو جتنی زیادہ زناکاری (متعہ) کرے اس کا رتبہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے یعنی ایسا کر کے وہ بتدریج اور بالترتیب حضرت حسین، حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے اور ان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے...
ہم اپنی اس بات کے لئے خمینی صاحب کی کتاب "منہج الصادقين" میں موجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث بطورِ دلیل پیش کئے دیتے ہیں:

"مَنْ تَمَتَّعَ مَرَّۃً فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحُسَین، وَمَن تَمَتَّعَ مَرَّتَین فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحَسَن ،وَمَن تَمَتَّعَ ثَلَاثَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ عَلِيٍّ، وَمَن تَمَتَّعَ اَربَعَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَتِي"....
یعنی جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسن علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو تین مرتبہ متعہ کرے وہ امیر المومنین علیہ السلام (علی رضی اللہ عنہ) کا درجہ پائے گا، اور جو چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا (پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) درجہ پائے گا.... (منہج الصادقين للخمینی ج 1 ص 356)

نعوذ باللہ من ذلك.... لیجئے صاحب! اب مقام و مرتبے اعمال صالحہ کرنے اور نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے سے نہیں بلکہ "زناکاری" (متعہ) کا ارتکاب کر کے حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے...

*محترم قارئین!* لیں اسی طرح کی ایک اور روایت بلکہ فضیلت پڑھتے ہوئے اپنی حیرت میں مزید اضافہ کریں...

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ
"ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ "میں نے زنا کیا ہے لہذا آپ مجھے پاک کر دیجئے".... چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا...... لیکن جب اس کی اطلاع امیر المومنین علیہ السلام (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو دی گئی تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ "تو نے کس طرح زنا کیا تھا؟"...... اس عورت نے جواب دیا کہ "میں جنگل میں گئی تھی، وہاں مجھ کو سخت پیاس محسوس ہوئی، تو ایک اعرابی سے میں نے پانی کا سوال کیا، اس نے مجھے پانی پلانے کے لئے ایک شرط رکھی کہ میں اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دوں.... جب مجھ کو پیاس نے بہت زیادہ مجبور کر دیا اور مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہوا تو میں راضی ہو گئی اور میں نے اس کی شرط مان لی، اس نے مجھے پانی پلایا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا"..... یہ پورا معاملہ سننے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "قسم کعبہ کے رب کی، یہ تو زنا نہیں بلکہ نکاح ہے".... (فروع کافی ج 2، ص 198)
دیکھئے اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق زنا کا وجود دنیا سے اٹھ گیا ہے، بازاروں میں جس زنا کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں تو مرد و عورت دونوں باہم راضی ہو ہی جاتے ہیں... یہاں اس روایت کے مطابق اگر پانی کے بدلے زنا پر آمادگی و رضامندی دے دی تو وہاں اس سے بڑھ کر دولت و روپیہ دیا جاتا ہے... گواہ، وکیل، ولی اور ایجاب و قبول کی شرطیں نہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں.... شاباش....
بقول شاعر
منظور ہے کہ سیم تنوں کا وصال ہو
مذہب وہ چاہیئے کہ زنا بھی حلال ہو

*متعہ اور زنا میں مماثلت*

*محترم قارئین!* ہماری اوپر کی گفتگو میں آپ نے بارہا "متعہ" کے بدلے لفظ "زنا" کا استعمال دیکھا اور پڑھا ہے... ایک سوال شاید آپ کے ذہن میں انگڑائیاں لے رہا ہو کہ میں نے آخر ایسا کیوں کیا... تو آیئے آپ کے اس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں:

* زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے...
* زنا کے لئے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک...
* زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے...
* زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو...
* زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے...
* زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی...
* زانیہ وارث نہیں بن سکتی...
* زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے...

اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ "زنا" نکال دیں اور اس کی جگہ "متعہ" کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے "زنا" کہا جاتا ہے اور اُسے "متعہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے... اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ کا فرمان بھی پڑھ لیں... "وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً" یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے... (بنی اسرائیل 32)

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "متعہ کے جواز کے لئے شیعی دلائل اور ان کا رد"

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں بارہویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
بارہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
___________________

*شیعوں کا ایک بیہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے*

اس ضمن میں ہم سب سے پہلے شریعت کی نظر میں "متعہ" کی حیثیت کا جائزہ لیں گے پھر اس سلسلے میں شیعوں کا عقیدہ ذکر کیا جائے گا....

*متعہ کی تعریف:* متعہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے مقررہ معاوضے کے بدلے مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کر لے مثلاً دو دن، تین دن یا اس کے علاوہ کسی متعینہ مدت تک کے لئے.....

*متعہ کا حکم:* نکاح کے سلسلے میں شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اس میں استمرار اور دوام ہو، موقّت شادی یعنی "متعہ" شروع اسلام میں جائز تھا پھر بعد میں اسے حرام کر دیا گیا اور اب قیامت تک کے لئے یہ عمل حرام ہی رہے گا.... اپنی اس بات پر ہم کچھ نبوی فرامین ذکر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:

1- عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه:"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر" یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے سال متعہ کرنے سے منع کر دیا" (بخاری 3979، مسلم 1407).....

2- عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: "أن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية" حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے "متعہ" کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے خیبر کے روز منع کر دیا تھا.... (بخاری 4216) اور یہ بات معلوم اور مشہور ہے کہ غزوۂ خیبر محرم سن7ھ میں پیش آیا.....

3- عن إياس بن سلمة عن أبيه قال:"رخّص رسول الله صلى الله عليه وسلم عام أوطاس في المتعة ثلاثا،ثم نهى عنها" ایاس بن سلمہ اپنے باپ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اوطاس" کے سال تین دن کے لئے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر اس سے منع کر دیا.... (مسلم 1405)
"اوطاس کے سال" سے مراد "غزوۂ حنین" کا سال ہے اور یہ واقعہ سن8ھ میں فتح مکہ کے بعد پیش آیا.....

4- عن سَبُرَة الجهني رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا أيها الناس إني قد كنت أذنت لكم في الأستمتاع ألا وإن الله قد حرمها إلى يوم القيامة , فمن كان عنده منهن شيء فَلْيُخَل سبيلها,ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئاً" سبرہ الجھنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ نے اسے روزِ قیامت تک کے لئے حرام قرار دے دیا ہے، پس جس کے پاس بھی ان عورتوں (متعہ والی) میں سے کوئی ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور تم جو کچھ انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو" (مسلم 1406).......

*محترم قارئین!* مذکورہ بالا ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "نکاح متعہ" پہلے حلال تھا پھر قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا... مزید آپ چند محدثین اور ائمہ کے اقوال بھی دیکھتے چلیں:

1- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "رخصت کے بعد چھ مختلف مقامات پر "نکاح متعہ" کا منسوخ ہو جانا مروی ہے:
1- خیبر میں (7ھ)
2- عمرۃ القضاء میں (7ھ)
3- فتح مکہ کے سال (8ھ)
4- اوطاس کے سال (8ھ)
5- غزوہ تبوک میں (9ھ)
6- حجۃ الوداع میں (10ھ)
(بحوالہ فتح الباری ج 9 ص 173)

2- امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں: "درست بات یہ ہے کہ متعہ دو مرتبہ جائز ہوا اور دو ہی مرتبہ حرام ہوا اور پھر قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا، یہ غزوۂ خیبر سے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر جائز کیا گیا (اور اسی کو "عام اوطاس" بھی کہتے ہیں) اس کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے حرام کر دیا گیا".... (شرح مسلم ج9 ص 181)
3- جمہور سلف و خلف کا قول: نکاح متعہ منسوخ ہے (فتح الباری ج 9 ص 173)
4- قاضی عیاض رحمہ اللہ نے "نکاح متعہ" کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صرف شیعہ حضرات اسے جائز قرار دیتے ہیں (شرح مسلم للنووی ج 9 ص 79)
5- سعودی مستقل فتوی کمیٹی نے یہ فتوی دیا ہے کہ "نکاح متعہ" حرام ہے اور اگر واقع ہو جائے تو باطل ہے (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ج 18 ص 440)

*محترم قارئین!* اب تک کی ہماری گفتگو سے ممکن ہے کہ "نکاح متعہ کی شرعی حیثیت" آپ کی سمجھ میں آ چکی ہو... یہ باتیں وہ تھیں جو شریعت کی تعلیمات کی روشنی میں ہم نے بیان کی ہیں..... اب آیئے اس نکاح کو جائز کہنے والے "رافضیوں" اور "شیعوں" کی باتوں کو بھی سمجھ اور جان لیتے ہیں... اس حوالے سے سب سے پہلے بات آپ یہ ذہن نشین کر لیں کہ "متعہ" مذہب شیعہ کا مشہور مسئلہ ہے، چنانچہ ایرانی انقلاب کے روح رواں سمجھے جانے والے خمینی صاحب نے اپنی کتاب "تحریر الوسيلة" میں "کتاب النكاح" کے تحت تقریباً چار صفحات پر "متعہ" سے متعلق جزوی مسائل لکھے ہیں، ہم ان میں سے ایک بات کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں، خمینی صاحب لکھتے ہیں:
"يجوز التمتع بالزانية على كراهة خصوصا لو كانت من العواهر المشهورات بالزنا وإن فعل فليمنعها من الفجور" یعنی "زانیہ عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ، خصوصاً جبکہ وہ مشہور پیشہ ور زانیہ ہو، اور اگر اس سے متعہ کر لے تو اسے (بطور نصیحت) بدکاری کے پیشہ سے منع کر دے" (تحریر الوسیلہ ج2 ص 292)......واہ بھائی واہ! گویا کہ چھوڑنے کا دل کر رہا ہے مگر پکڑنا بھی ضروری ہے....

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ اگلی قسط میں "متعہ کے فوائد شیعوں کی نظر میں اور متعہ کے جواز پر شیعی دلیلیں"

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں گیارہویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
گیارہویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
____________________

*نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے*

شیعہ حضرات کے عقیدہ امامت (جس کا تذکرہ تیسری اور چوتھی قسط میں کیا گیا تھا) کا یہ بھی لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کو قبول کر لینے کے بعد "ختم نبوت" کا عقیدہ ختم اور بے معنی ہو جاتا ہے.... ظاہر ہے کہ نبوت و رسالت اور ختم نبوت و ختم رسالت یہ صرف الفاظ کے پیرائے نہیں ہیں بلکہ ان کی ایک متعین اور معلوم حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " خاتم النبیین" ہیں اور اس کا یہ مطلب ہے کہ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی گئی ہے، آپ کے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آنے والا، آپ کو ماننا شرط نجات اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام آنے کا سلسلہ آپ پر موقوف ہو گیا، اب قیامت تک کے لئے آپ پر نازل کی گئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ کے ارشادات و اعمال (جن کا نام "سنت" ہے) ہی ہدایت کا سرچشمہ اور مرجع و ماخذ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخصیت ایسی نہ ہوگی جو انبیاء و رسل کی طرح بندوں کے لئے اللہ کی طرف سے حجت اور معصوم ہو... ختم نبوت کا مطلب یہی تھا، یہی ہے اور قیامت تک یہی رہے گا..........
لیکن شیعیت کے عقیدہ امامت کے مطابق (جس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں) جب یہ بات مان لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ ائمہ اللہ کی طرف سے نبیوں اور رسولوں ہی کی طرح اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے حجت ہیں، معصوم ہیں، ان کی معرفت اور ان کی اطاعت شرط نجات ہے، اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کو بھی ہدایت اور احکام ملتے ہیں، ان کو وہ سارے فضائل و کمالات حاصل ہیں جو انبیاء کو حاصل تھے، وہ مرتبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور بقیہ انبیاء و رسل سے برتر ہیں، وہ الہی صفات و اختیارات کے حامل بھی ہیں، ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں، کوئی بھی چیز ان سے پوشیدہ نہیں، وہ مختار کل ہیں، دنیا اور آخرت ان کی ملکیت ہے جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں اور ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے..... ظاہر ہے جب ان ائمہ کے تعلق سے ان ساری باتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ختم نبوت کا عقیدہ بے معنی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدہ یہ بنتا ہے کہ معاذ اللہ "گھٹیا درجے کی نبوت کا سلسلہ ختم ہو کر اب امامت کے عنوان سے ترقی یافتہ اور اعلی درجے کی نبوت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہو گیا ہے اور اس سلسلے کے خاتم امام مہدی غائب ہیں جن سے ان کمالات کا ظہور ہوگا جن کا ظہور خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں ہوا تھا"..... استغفر اللہ ربي واتوب الیہ..... مذہب شیعہ کا ترجمان اعظم علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ "امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری است" یعنی امامت کا درجہ پیغمبری سے بالاتر اور اعلی ہے.......... اس تفصیل کا ما حصل یہ ہے کہ
"عقیدہ امامت کو تسلیم کر لینے کا لازمی اور حتمی نتیجہ دو اور دو چار کی طرح یہ نکلتا ہے کہ "نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ" امامت" کے عنوان سے ترقی کے ساتھ جاری اور ساری ہے"........ (امام خمینی اور شیعیت از مولانا منظور نعمانی ص 243_241)
ویسے ہی ہم شیعوں کو کافر تھوڑی کہتے ہیں جناب، یہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا منکر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور آپ کا منکر اللہ کا منکر ہے اور جس نے اللہ کا انکار کیا وہ بہر صورت مسلمان نہ ہو کر کافروں میں اپنا شمار کرا لیتا ہے......

*"رجعت" کا عقیدہ*

"رجعت" کا عقیدہ بھی شیعہ حضرات کے مخصوص عقائد میں سے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "امام مہدی غائب جب ظاہر ہوں گے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امیر المومنین (حضرت علی رضی اللہ عنہ)، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن و حسین رضی اللہ عنہما، تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص مومنین زندہ ہو کر اپنی قبروں سے باہر آئیں گے اور یہ سب امام مہدی کی بیعت کریں گے، ان میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیعت کریں گے، ابو بکر و عمر، عائشہ اور ان سے محبت و مودت کا خصوصی تعلق رکھنے والے خواص کفار و منافقین بھی زندہ ہوں گے اور امام مہدی ان کو سزا دیں گے، ہزاروں بار ان کو مار مار کے جلائیں گے اور سولی پہ چڑھائیں گے، اس کے بعد اللہ جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور عذاب دیتا رہے گا... (حق الیقین از علامہ باقر مجلسی ص 145 در بیان رجعت)

شیعی کتاب "تحفۃ العوام" میں ایک جگہ "عقیدہ رجعت" کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
"اور رجعت پر بھی ایمان لانا واجب ہے یعنی جب امام مہدی ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر و منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا و تعزیر پاوے گا" ( تحفۃ العوام ص 5)
*محترم قارئین!* یہ تو تھا شیعوں کا عقیدہ، جبکہ جمہور امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد تمام بنی آدم، مومن و کافر اور صالح و فاسق دوبارہ صور پھونکنے کے بعد ہی زندہ کئے جائیں گے اور پھر حشر کے میدان میں اللہ ان کے درمیان جزا و سزا نیز جنت و جہنم کا فیصلہ کرے گا... لیکن شیعہ حضرات کے نزدیک قیامت سے پہلے بھی امام مہدی کے ظہور پر ایک قیامت قائم ہوگی اور نہ صرف یہ کہ نبی معصوم حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں گے بلکہ وہ امام مہدی کی بیعت بھی کریں گے... نعوذ باللہ... اس پر مستزاد یہ کہ کافر و فاجر اور مومن و صالح کے سلسلے میں سزا اور جزا دینے والے خود امام مہدی ہی ہوں گے.... فلعنۃ اللہ علی الظالمين و الکاذبین والفاجرین والکافرین

(جاری ہے)
اگلی قسط میں پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کا ایک بے ہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے"

*+919022045597*