زیر ناف بال مونڈنے کی حد
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میرا سوال یہ ہے کے زیر ناف بال کہاں سے لے کر کہاں تک مونڈنا چا ہیں۔ میر ے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس میں عضو خاص کے پاس ٹانگوں سے بھی بال کاٹنے چاہیں اور پا خانے کی جگہ کے اردگرد سے بھی بال کاٹنا ضروری ہیں۔ میرا معمول تو یہ رہا ہے کہ ناف کے نیچے اور انڈوں پر نیچے جہاں نظر جاتی میں بال کاٹتا ہوں ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زیر ناف بالوں کو کاٹنا واجب اور ضروری ہے اور اس کا مقصد نجاست سے صفائی اور پاکیزگی ہے۔ چالیس دن تک یا اس سے زائد بلاوجہ چھوڑنا مکروہ ہے، اس کی حد ناف کے نیچے پیڑوکی ہڈی سے لیکر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کا آس پاس کاحصہ اور رانوں کا وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو ،یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:امام نووى كا كہنا ہے كہ: ) العانۃ ( زيرناف بالوں سے مراد وہ بال ہيں جو عضو تناسل پر اور اس كے ارد گرد بال ہيں، اور اسى طرح عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد بال زيرناف بال كہلاتے ہيں.اور ابو العباس بن سريج سے منقول ہے كہ: دبر كے سوراخ كے ارد گر پائے جانے والے بال.تو اس مجموعى كلام سے يہ حاصل ہوا كہ قبل اور دبر اور ان كے ارد گرد پائے جانے والے سارے بال مونڈنا مستحب ہيں، وہ كہتے ہيں كہ: مونڈنے كا ذكر اس ليے كيا ہے كہ يہ غالب طور پر ہوتا ہے، وگرنہ پاؤڈر كے ساتھ يا اكھاڑ كر يا كسى اور طريقہ سے بھى اتارنے جائز ہيں.اور ابو شامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:العانۃ: وہ بال ہيں جو الركب ) راء اور كاف پر زبر كے ساتھ ( يعنى پيٹ كے نچلے حصہ اور شرمگاہ كے اوپر ہوں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ہر ران كى ركب ہوتى ہے، اور يہ بھى قول ہے كہ شرمگاہ كے اوپر والے، اور يہ بھى كہا گيا ہے گہ مرد يا عورت كى بنفسہ شرگاہ پر اگے ہوئے بال.وہ كہتے ہيں: قبل اور دبر سے بال ختم كرنے مستحب ہيں، بلكہ دبر سے زائل كرنا اولى ہيں كہ كہيں ان ميں پاخانہ وغيرہ نہ اٹك جائے، كہ پانى سے استنجاء كيے بغير وہ گندگى ختم ہى نہ ہو، اور پتھر اور ڈھيلے استمال كرنے سے وہ گندگى ختم نہيں ہوگى.اور ان كا كہنا ہے كہ: مونڈنے كى جگہ پاؤڈر بھى استعمال كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح اكھاڑنے اور كاٹ كر بھى صاف كرنے صحيح ہيں.امام احمد رحمہ اللہ سے زيرناف بال قينچى كے ساتھ كاٹنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:مجھے اميد ہے كہ يہ كفائت كرےگا، تو ان سے عرض كيا گيا: تو پھر اكھاڑنا كيسا ہے ؟تو انہوں نے جواب ديا: آيا كيا كوئى اس كى طاقت ركھتا ہے ؟اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں كہ: اہل لغت كا كہنا ہے:العانۃ: وہ بال ہيں جو شرمگاہ پر اگے ہوں، اور ايک قول يہ بھى ہے كہ: وہ بال اگنے والى جگہ ہے.وہ كہتے ہيں: اور حديث سے مراد بھى يہى ہے، اور ابو بكر بن عربى كہتے ہيں: اتارے جانے بالوں ميں زيرناف بال اتارے جانے كا زيادہ حق ركھتے ہيں، كيونكہ ان ميں گندگى اور ميل كچيل پھنس جاتى ہے.اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں: دبر كے ارد گرد بال صاف كرنے كو مستحب كرنے والے لگتا ہے كہ انہوں نے بطور قياس ايسا كہا ہے. اھ هذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
Zere naf ke bal ki safay
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment