سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 17..
تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. (حصہ اول)
-----------------------------------------------------------
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خانوادہ اپنے جد اعلیٰ "ہاشم بن عبد مناف" کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے.. مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض نام ور افراد کے مختصر حالات پیش کر دیے جائیں..
1.. قصی بن کلاب..
-----------------------
قصی بن کلاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ پشت پہلے کے بزرگ ھیں.. دراصل یہ ھی قصی بن کلاب ھیں جنہوں نے نہ صرف بنو خزاعہ سے خانہ کعبہ کی تولیت کا حق واپس لیا بلکہ اپنی قوم بنی اسماعیل اور قبیلے بنی قریش کو منظم و متحد کرکے مکہ کو ایک باقائدہ ریاستی شھر کی شکل دی.. خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ سے قصی بن کلاب اور ان کی آل اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی سیادت اور عزت و احترام کا درجہ حاصل ھوگیا اور قصی بن کلاب نے خود کو اس کا اھل ثابت بھی کیا..
قصی بن کلاب کو بلامبالغہ مکہ کی شھری ریاست کا مطلق العنان بادشاہ کا درجہ حاصل تھا.. انہوں نے نہ صرف خانہ کعبہ گرا کر نئے سرے سے اس کی تعمیر کرائی بلکہ پہلی دفعہ اس پر کجھور کے پتوں سے چھت بھی ڈالی.. اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے جملہ انتظام کا جائزہ لے کر اس میں ضروری اصلاحات بھی کیں..
دوسری طرف خانہ کعبہ کے پاس ھی ایک عمارت تعمیر کرائی جسے "دارالندوہ" کا نام دیا گیا.. یہاں بنو اسماعیل اور مکہ کے دوسرے قبائل کے سرداروں اور عمائدین کے ساتھ ملکر مختلف امور کے متعلق بحث و تمحیث کے بعد فیصلے کیے جاتے.. قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے.. قافلے یہیں سے تیار ھو کر باھر جاتے.. نکاح اور دیگر تقریبات کے مراسم بھی یہیں ادا ھوتے..
اس کے علاوہ مختلف ریاستی امور نبٹانے کے لیے چھ مختلف شعبے قائم کیے اور ان کا انتظام اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا..
2.. حضرت ھاشم بن عبد مناف..
--------------------------------------
حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی تو عبدمناف کی اولاد میں حضرت ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا.. حضرت ہاشم بڑے مالدار اور نہایت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. ان کا اصل نام عمرو تھا.. چونکہ ان کے زمہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی تھا تو وہ ان زائرین کی تواضع ایک خاص قسم کے عربی کھانے سے کرتے جسے "ھشم" کہا جاتا تھا.. (عربی زبان میں ھشم شوربہ میں روٹیاں چورا کرنے کو کہتے ھیں..) مکہ میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے تمام اھل مکہ کے لیے یہی شوربہ تیار کرایا جس پر انہیں "ھاشم" کا لقب ملا اور تاریخ نے پھر انہیں اسی لقب سے یاد رکھا..
ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم کے نام سے مشھور ھے.. انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لیے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کیے جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کیے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے.. یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ھوئے جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ھوا اور ان کے قافلے شام , حبشہ , ترکی اور یمن میں جانے لگے..
ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے.. دوران سفر یثرب (جس کا نام بعد میں مدینہ یا مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھوا..) میں ٹھہرے.. وھاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون "سَلْمیٰ بنت عَمْرو" سے شادی کرلی اور کچھ دن وہیں ٹھہرے رہے.. پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے.. غالبا" ان کا ارادہ تھا کہ واپسی پر ان کو مدینہ سے مکہ لے جائیں گے مگر شادی سے چند ماہ بعد دوران سفر ھی ان کا انتقال فلسطین کے علاقے غزہ میں ھو گیا..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمھمااللہ
منقول؛ڈاکٹرزبیراحمد حفظہ اللہ
الداعی الی الخیر؛عبدالستاربدرجی گوگی
No comments:
Post a Comment