TEEN AADMIYO KI DUA JARUR QABUL HOTI HAI

*​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​​🌴 ​•‍━━•••◆◉﷽◉◆•••‍━━•​🌴​*
  
         *📚حـــــــدیثِ رســـولﷺ📚*

```✒تین آدمیوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے🤲🏻🌹```

*🌹ابو ھریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :*

*🤲🏻☑’’ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ،*

*1⃣🌹والــد کی دعا*

*2⃣🌹مسافر کی دعا*

*3⃣🌹اور مظلوم کی دعا ۔‘‘*

📚مشکاة المصابیح:2250
*❀* حکم::حـــــسن

*🌴𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ 𖣔╼ ⃟ ⃟  ⃟ ⃟ ╼𖣔🌴*

HAIZA K HAJJ KA HUKAM

HAIZA K HAJJ KA HUKAM

Question :
Ayaam hajj mai agar kisi aurat ko haiz aajaye to kia issy yahi hajj kafayat ker sakta hai?

Answer :
Jab koi aurat hajj k dino mai haiz sy 2 4 hujaye to deegar hujaj ki tarhan tamam amaal hajj baja laye. haan woh taharat pany tak tavaf-e-kabaah aur sufa marva k dermiyan sai na kery. haiz sy faragat k baad woh gusal kery, tavaf-o-daa hi baki reh gaya ho tu woh wapsi ka safar ker sakti hai aur tavaf-o-daa na ker sakny ki wajah sy is per kufara nahi hai aur is ka hajj bhi sahi hoga. Aisy ho agar aurat ko youm-e-arfa mai haiz aajaye to woh apny hajj k tamam kaam kerti jayegi jaisy log kerty jayen gey magar woh taharat pany tak tawaf-e-kaba nahi kerygi. iski daleel Rasool Allah (S.A.W) ka yh irshad hai:

"Haiz aur nifas wali aurtain jab meeqat per ayen to gusal ker k ehram bandh len aur tawaf kaba k siwa tamam manasik hajj ada karen.
sanan abi daud' hadis:1744' wa jamia at'tramzi' hadis: 945.
Hazrat Ayesha R.A. sy marvi hai k woh manasik umraah ki adaigi sy pehly haiza hugaeen to NAbi (S.A.W) ny inhain hukam farmaya k " woh hajj ka aihram bandh len magar taharat pany tak Bait-ul-Allah ka tawaf na karen aur woh tamam manasik hajj baja layen jo deegar hujaj baja laty hain, naiz yh k woh hajj ko umrey mai dakhil ker den.
sahi albukhari' hadis: 1650.
Hazrat Ayesha R.A. sy yh bhi marvi hai k Nabi (S.A.W) ki zoja muhtarma Hazrat Safia R.A. haiza hugayee to inhuny is baat ka Rasool Allah (S.A.W) sy tazkara kia, is per App (S.A.W) ny farmaya:

"Kia woh humain rouk degi (rawangi muakhar kerni pareygi?) sahaba ny arz kia: woh tawaf efafa ker chuki hain. App (S.A.W) ny farmaya: tab koi harj nahi (woh bhi ravana hujaye.)"
sahi albukhari' hadis:1757' wa sahi muslim' hadis: (384)- 1211.
aik aur ravayat k ilfaz you hain:
"Ayesha R.A. ny biyan kia k Safia Bin-e-HAyi tawaf efafa kerny k baad haiza hugayee to mai ny is baat ka tazkara Rasool Allah (S.A.W) sy kia to Rasool Allah (S.A.W) ny farmaya: " kia woh humain rok degi?" YA RAsool Allah! woh tawaf efafa kerny k baad haiza huwi hain. is per Rasool Allah (S.A.W) ny farmaya: to phir woh ravana hujaye." (Darook Pak) (Dar-ul-ifta cammettie)
sahi muslim' hadis: (382)-1211.

🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
NON MUSLIM BROTHER AND SISTER KE LIYE FREE GUJARATI QURAN CONTACT KIJYE MAKTABA AL FURQAN SAMI 9998561553. .
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

HAWALAH KI AHMIYAT

*مصدر( حوالہ ) کی اہمیت*

(عربى واٹس آپ گروپ
"المحجة البيضاء بفهم السلف"  سے منقول عربی تحریر کی اردو ترجمانی)

*اردو ترجمانی:*
*حافظ عبد الرشید عمری*

دلائل کی تحقیق و جستجو
میں، مصادر( حوالہ جات ) کے ذکر کرنے میں،
اور اقوال کو ان کے قائلین کی طرف منسوب کرنے میں پوری ایمانداری اور امانت داری کا ثبوت دینا چاہئے،

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا:
کہا جاتا ہے کہ قول کو اس کے قائل کی طرف منسوب کرنا علم کی برکت میں شمار ہوتا ہے

الجامع(٢/٩٢)
~~~~~~~~~~~~~~~

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا:
کسی جماعت سے منسوب کوئی بات ذکر کرنا چاہتے ہو تو قائل اور ناقل کے نام کا ذکر ضرور کرو،
ورنہ ہر کوئی جھوٹ کہنا شروع کردے گا ۔

منهاج السنة(٥١٨/٢)
~~~~~~~~~~~~~~~

عبدالله بن مبارك رحمه الله نے کہا:
سلسلہء سند دین کا حصہ ہے اگر سند کا ذکر کرنا ضروری قرار نہ دیا جاتا تو ہر کوئی جو چاہتا کہہ دیتا

المجروحين (١٨١/١)
~~~~~~~~~~~~~~~~

امام نووی رحمہ اللہ نے کہا:
ایک اہم نصیحت یہ ہے کہ
کوئی بھی علمی نکتہ اور فائدہ ہو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے،
جو اس کا اہتمام کرے گا تو اس کے علم و عمل میں برکت پیدا ہوگی،
اور جو دوسروں کے علمی نکات اور فوائد کو اس طرح بیان کرے کہ قاری اور سامع کو یہ گمان ہونے لگے کہ یہ علمی نکات اور فوائد اسی کے ہیں،
ایسے علمی خیانت کے مرتکب عالم دین کے علم سے لوگ مستفید بھی نہیں ہوں گے
اور اس کے علم و عمل میں برکت بھی ختم ہو جائے گی ۔

( بستان العارفين ص:٢٩)
~~~~~~~~~~~~~~

علامہ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے کہا:
ہم ایسے دور میں ہیں کہ بغیر علمی سرمایہ کے ہر کوئی تقریر و تحریر کا شہسوار بنا ہوا ہے،
(اور اپنے آپ کو بڑے علامہ اور مفتی کے طور پر پیش کرتا ہے)
اس لئے ہر مسلمان پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے کے فتوے پر اعتماد نہ کرے بلکہ مستند اور قابل ثقہ
عالم دین کا فتوی تلاش کرے

لقاء الباب المفتوح(16/32)
~~~~~~~~~~~~~~~

اللہ تعالٰی ہمیں علم نافع حاصل کرنے اور اس کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور علم کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

IKHTILAF KI AQSAM

*اختلاف کی اقسام*

*سوال:*

یمنی محدث مقبل بن ھادی رحمہ اللہ کے سامنے ایک سوال پیش کیا گیا:

"جب ہم عوام الناس کے سامنے علماء کرام کے مابین پائے جانے والے اختلافات بیان کرتے ہیں تو ان اختلافات کو کس انداز میں پیش کرنا چاہئے،
کیونکہ عوام تو اختلافات کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر ہے" ۔

*جواب:*

اختلاف کی تین اقسام ہیں:

1)اختلاف تنوع
جیسے درود کے مختلف صیغے احادیث میں آئے ہیں
التحیات کے بھی مختلف صیغے آئے ہیں
اسی طرح دعاء استفتاح
(تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی جانے والی دعاء)کے سلسلے میں میں کئی ایک دعائیں ثابت ہیں
اس کو اختلاف تنوع کہا جاتا ہے ۔

2)اختلاف فہم
قرآن و سنت کے نص کے فہم
میں اختلاف کا پایا جانا ہے
مثال کے طور وہ حدیث جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو غزوہء احزاب کے بعد حکم دیتے ہوئے فرمایا:
لايصلين أحد العصر إلا فى بني قريظة.
کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ(کی بستی) میں
بعض صحابہ کرام ابھی راستہ ہی میں تھے کہ عصر کا وقت ہو گیا
بعض نے ہم بنو قریظہ کی آبادی ہی میں جا کر نماز ادا کریں گے
بعض نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ مراد نہیں ہے جو تم نے سمجھا ہے
بعد میں اس کی تفصیل سے اللہ کے رسول صلی اللہ کو واقف کرایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو بھی سخت سست کہہ کر نہیں ڈانٹا،
یعنی کسی کے فعل کو درست اور کسی فعل کو غلط قرار نہیں دیا ۔
(صحیح بخاری:946)

3)اختلاف تضاد

پہلی دونوں قسموں میں تو نص ہی کی بنیاد پر اختلاف کی گنجائش ہے
اگرچہ اختلاف کے جواز کے باوجود کوئی افضل اور  کوئی مفضول اور کوئی راجح اور کوئی مرجوح قرار پائے گا
اور بسا اوقات دونوں مسئلے متوازی صورت میں یکساں طور پر جائز ہوں گے،
کسی کو افضل اور کسی کو  غیر افضل قرار دینا بھی مشکل معلوم ہوگا ۔
اور ایک اختلاف کی تیسری قسم وہ ہے جو مذموم ہے
وہ اختلاف تضاد ہے
یعنی کسی صریح صحیح حدیث کی مخالفت کرنا
جبکہ  اس صحیح حدیث
کی مخالفت کی کوئی مناسب تاویل اور توجیہ کی صورت بھی باقی نہ رہے ۔
بطور مثال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں مردوں کو سونا استعمال کرنے سے منع کیا ہے
پھر بھی کوئی استعمال کرتا ہے تو ہم پوری ایمانی غیرت کے ساتھ اس کو روکیں گے ۔
کیونکہ یہ اختلاف درحقیقت شریعت کی مخالفت ہے ۔
شرعی دلیل کے بغیر ہونے والے ہر اختلاف کو شریعت کی مخالفت سمجھا جائے گا اور ایسے اختلاف کی سخت مذمت کی جائے گی ۔

(مذکورہ سوال اور جواب ایک کیسٹ سے منقول ہے
جس میں آذربائیجان کے اہل سنت و جماعت کے لوگوں کی جانب سے کئے گئے سوال  اور علامہ مقبل رحمہ اللہ کے  جواب موجود ہیں)

(اسی طرح جتنے بھی گمراہ فرقے اعتقادی مسائل میں اختلاف کرتے ہیں ان کا یہ باطل اختلاف اسی اختلاف تضاد کے زمرے میں آتا ہے
اور اسی طرح اہل سنت و جماعت کے مسالک کے حاملین بعض اعتقادی اور فقہی مسائل میں قرآن و سنت کی دلیل کے بغیر اختلاف کرتے ہیں تو ان کا بےجا اختلاف بھی اسی اختلاف تضاد کے زمرے میں آتا ہے ۔)
(وضاحت از مترجم)

اردو ترجمانی:
حافظ عبد الرشید عمری

BE DEENI KE SAT AHM ASBAB

*بے دینی کے سات اہم  اسباب*

[کتاب الإلحاد للشيخ صالح سندي ص:١٧-١٩]

اردو ترجمانی:
حافظ عبد الرشید عمری

*پہلا سبب:*
اسلامی تہذیب و تمدن کے تئیں مسلمانوں کی شکست خوردہ ذہنیت ہے
اس ذہنیت کے حامل اکثر مسلمان یورپی اور غیر اسلامی تہذیب کو بہت ہی پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنی موروثی اسلامی تہذیب کو حقارت سے دیکھتے ہیں،
اور ان کا یہ باطل گمان ہے کہ غیر مسلموں کی مادی ترقی کا راز ان کی بے دینی ہے ۔

*دوسرا سبب:*
قضاء وقدر (اللہ کی تقدیر اور فیصلوں) کو کما حقہ نہ سمجھنا ہے
خصوصی طور پر اللہ کے افعال ( کاموں ) میں جو غایت درجہ حکمت اور علت پائی جاتی ہے اس پر کامل ایمان نہ رکھنا ہے ۔

*تیسرا سبب:*
ایسےمسلمان جو غیر مسلم ممالک میں کسی بھی حیثیت اور نوعیت کی لمبی مدت تک  سکونت اختیار کرتے ہیں
اور  عملی طور پر اسلامی تعلیمات سے کوسوں  دور رہ کر زندگی گزارتے ہیں
تو شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے دل و دماغ میں اسلام کے خلاف کئی شکوک و شبہات پیدا ہو کر  ان کی ذہن سازی اس طرح ہوجاتی ہے کہ وہ اسلامی طرز زندگی کو مادی ترقی میں اہم رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔

*چوتھا سبب:*
شخصی آزادی کے نام پر خواہشات نفس کے پجاری بن کر کھلی انارکی کی زندگی گزارنا جس میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نام کی چیز نہیں ہوتی ہے
اور نہ خوف الہی اور اخروی جوابدہی کا شعور باقی رہتا ہے
اور ایسی دین بیزاری کی زندگی کے سبب ضمیر بھی مردہ جاتا ہے
یعنی ایسے بےدین مسلمان کا نفس " نفس امارہ " بن جاتا ہے

*پانچواں سبب:*
گمراہ فرقے خود ساختہ غلط عقائد پر کاربند رہنے کی وجہ سے شرکیات اور خرافات کو اسلامی تعلیمات کے طور پر پیش کرتے ہیں تو یہ بےدین   مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیمات سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے یہ  سمجھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات بھی دنیاوی ترقی میں سب سے  بڑی رکاوٹ ہیں،
جیسا کہ نصارٰی کے پادریوں کی مذہبی تعلیمات کو یورپ کی ترقی میں بڑی رکاوٹ سمجھا گیا تھا ۔

*چھٹواں سبب:*
دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے محاسن(خوبیوں)سے کما حقہ آگاہ نہ ہونا ہے
اگر دنیاوی تعلیم سے بہرہ مند
یہ عقلمند مسلمان اسلام کو اس کے محاسن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے تو ان کا ہر شک و شبہ ہر خود ساختہ عقیدہ اور ہر باطل فکر کا قلع قمع ہوجاتا ۔

*ساتواں سبب:*
یہ سب سے اہم سبب ہے
کسی مسلمان کا دین بیزار اور بےدین ہونا خود اس کی بےدینی کا سب سے بڑا اور اہم سبب ہے
اور کسی مسلمان کا بےدین ہونا درحقیقت اس کے دل میں جاگزیں کبر پر دلالت کرتا ہے
اور کبر کی مذموم صفت کا حامل شخص حق کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ حق معلوم ہونے کے بعد اس کو قبول کرتا ہے ۔
اللہ تعالٰی نے سورہء غافر میں فرمایا:
إن الذين يجادلون فى آيات الله بغير سلطان أتاهم إن فى صدورهم إلا كبر ما هم ببالغيه
(غافر:٥٦)
جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند( دلیل )کے نہ ہونے کے اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں ۔
یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث اور حجت کرتے ہیں یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور ہو اور باطل مضبوط ہو،وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا ۔

(اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
الكبر بطر الحق و غمط الناس
تکبر درحقیقت حق کے انکار کرنے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے)

اللہ تعالٰی ہم کو بے دینی کے ہر چھوٹے بڑے سبب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،
اور اسلامی تعلیمات پر پورے ایمانی یقین کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔