QURBANI KE CHAR DIN

اگر کسی بات میں اختلاف ہو تو قرآن و حدیث کی طرف لوٹو

قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں

قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1) چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
“وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس”
”ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔

(2)مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
”اس قول ‘یعنی وجہ تسمیہ’ کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)

چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے
ــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے.

احادیث صحیحہ سے دلائل
ــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله. (السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296)
”ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476)

(2) امام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
” اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔”

(3) عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
”دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔”

یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621

صحابہ کرام سے ثبوت

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(1) مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
”عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)

اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے

(2) خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
”امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔

(3) صحابی رسول جبیر بن مطعم:
”امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔”(شرح مسلم: 13؍ 111)

(4) صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
”عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)

تابعین سے ثبوت
ـــــــــــــــــــــــــــــ
(1) امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ”امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔”
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)

(2) امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
”حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔”
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)

(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
”خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔”(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)

اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)

چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔

(2)امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
‘جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔”(الام للشافعی: 2؍ 244)

(3)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
”عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)

(4)امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔

چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

. امام ابن المنذر(م 319ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔”( الاقناع لابن المنذر: ص 376)

2. امام بیہقی(م 458ھ) نے کہا:
”سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔”(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)

3. امام ابو الحسن الواحدی(م 468ھ)نے کہا :
”قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔”(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)

4. امام نووی(م676ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔”(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)

5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
”قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔”(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)

6. امام ابن قیم(م751ھ) نے کہا:
”اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔”( زاد المعاد: 2؍ 319)

7. امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
”اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔”( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)

8. امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔”( نیل الاوطار:5؍149)

خلاصۂ بحث

قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین!

Surah baqarah 269

*🌹آج کا سبق، ترجمه و تفسير قرآن مجيد🌹*
*((سورة البقرة مدنية: آیت نمبر: 269))*
🌹أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.🌹
🌹بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.🌹
🌹📖 يُؤۡتِى الۡحِكۡمَةَ مَنۡ يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَنۡ يُّؤۡتَ الۡحِكۡمَةَ فَقَدۡ اُوۡتِىَ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ.
اردو:
وہ (اللہ تعالی) دانائی عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دے دی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں.
English:
He gives wisdom to whomever He wills. Whoever is given wisdom has been given much good. But none pays heed except those with insight.

*🥀تفسیر القرآن الكريم🥀*
🖋 فضيلة الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد (بھٹوی) حفظه الله تعالى
✍ "يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ": یہاں ”الْحِكْمَةَ“ سے مراد "دین کا صحیح فہم اور علم وفقہ میں صحیح بصیرت" ہے. رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”رشک دو خوبیوں کے سوا کسی پر جائز نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، پھر اسے (راہ) حق میں خرچ کرنے کی مکمل قدرت (توفیق) دی اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا فرمائی، تو وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے“. [بخاری، العلم، باب الاغتباط في ۔۔۔: ٧٣، عن ابن مسعود (رضي الله عنه)]
✍ "اُولُوا الْاَلْبَابِ": ”اَلْبَابٌ“ جمع ہے ”لُبٌّ“ کی، جس کے معنی "صاف ستھری اور پاکیزہ عقل" کے ہیں، ہر عقل کو ”لُبٌّ“ نہیں کہتے. (راغب)
✍ ”اُولُوا الْاَلْبَابِ“ کا ترجمہ جمع ہونے کی وجہ سے ”جو عقلوں والے ہیں“ کیا گیا ہے. جبکہ عام تراجم میں ”عقل والے“ ترجمہ کیا گیا ہے.
والله تعالى أعلم.💐💎

MINA KE DINO ME TAKBIRAT PADHNA AUR JAB 9 TARIKH HO

*🌹آج کا درس حدیث🌹*
*صحیح بخاری: کتاب: عیدین کا بیان*
*((باب: منیٰ کے دنوں میں تکبیرات پڑھنا اور جب نویں تاریخ کو عرفات میں جائے [تو اس وقت تکبیرات پڑھنا]))*
*CHAPTER:* To say Takbir on the days of Mina and while proceeding to Arafat.

📝 وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُبَّتِهِ بِمِنًى فَيَسْمَعُهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ أَهْلُ الْأَسْوَاقِ حَتَّى تَرْتَجَّ مِنًى تَكْبِيرًا وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًى تِلْكَ الْأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الْأَيَّامَ جَمِيعًا وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِ وَكُنَّ النِّسَاءُ يُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ.
✅ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیرات سے گونج اٹھتا. سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین سيده میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں.

*《حدیث نمبر: 970》*
🌹📖 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَنَسًا وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنِ التَّلْبِيَةِ،‏‏‏‏ كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي لَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ".
اردو:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے؟ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر. اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا.
English:
Narrated Muhammad bin Abi Bakr Al-Thaqafi: While we were going from Mina to `Arafat, I asked Anas bin Malik, about Talbiya, "How did you use to say Talbiya in the company of the Prophet?" Anas said: "People used to say Talbiya and their saying was not objected to and they used to say Takbir and that was not objected to either."

*🥀فوائد:🥀*
🖋 شیخ الحديث مولانا محمد داؤد راز رحمه الله تعالى
✍ لفظ "منیٰ" کی تحقیق حضرت علامہ قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ تعالى کے لفظوں میں یہ ہے:
"منا بکسر المیم یذکر ویؤنث فإن قصد الموضع فمذکر ویکتب بالألف وینصرف وإن قصد البقعة فمؤنث ولا ینصرف ویکتب بالیاء والمختار تذکیرہ".
یعنی: "لفظ "منا" میم کے زیر کے ساتھ اگر اس سے منا موضع مراد لیا جائے تو یہ مذکر ہے اور منصرف ہے اور یہ الف کے ساتھ (منا) لکھا جائے گا اور اگر اس سے مراد بقعہ (مقام خاص) لیا جائے تو پھر یہ مؤنث ہے اور لفظ یاء کے ساتھ "منی" لکھا جائے گا مگر مختار یہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور منا کے ساتھ اس کی کتابت بہتر ہے".
پھر فرماتے ہیں:
"وسمی منی لما یمنی فیه أي یراق من الدماء".
یعنی: "یہ مقام لفظ "منی" سے اس لیے موسوم ہوا کہ یہاں خون بہانے کا قصد ہوتا ہے".

*《حدیث نمبر: 971》*
🌹📖 حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ حَفْصَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ "كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ".
اردو:
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے عاصم بن سلیمان سے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے، ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے فرمایا کہ (نبی کریم ﷺ کے زمانہ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا. کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں. یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں. جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں. اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں.
English:
Narrated Um `Atiya: We used to be ordered to come out on the Day of `Eid and even bring out the virgin girls from their houses and menstruating women so that they might stand behind the men and say Takbir along with them and invoke Allah along with them and hope for the blessings of that day and for purification from sins.

*🥀فوائد:🥀*
🖋 شیخ الحديث مولانا محمد داؤد راز رحمه الله تعالى
✍ باب کی مطابقت اس سے ہوئی کہ عید کے دن عورتیں بھی تکبیریں کہتی تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں بھی شریک ہوتی تھیں.
✍ درحقیقت عیدین کی روح ہی بلند آواز سے تکبیر کہنے میں مضمر ہے تاکہ دنیا والوں کو اللہ پاک کی بڑائی اور بزرگی سنائی جائے اور اس کی عظمت کا سکہ دل میں بٹھایا جائے.
آج بھی ہر مسلمان کے لیے نعرہ تکبیر کی روح کو حاصل کرنا ضروری ہے. مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگی.
✍ تکبیر کے لفظ یہ ہیں:
"اللہ أکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ وأصیلا".
یا یوں کہیے:
"اللہ أکبر اللہ أکبر لا إله إلا اللہ واللہ أکبر اللہ أکبر وللہ الحمد".
والله تعالى أعلم.💐💎

Aaj ka sabaq surah baqarah 267

*🌹آج کا سبق، ترجمه و تفسير قرآن مجيد🌹*
*((سورة البقرة مدنية: آیت نمبر: 267))*
🌹أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.🌹
🌹بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.🌹
🌹📖 يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِ‌ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ.
اردو:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں اور اس میں سے گندی چیز کا ارادہ نہ کرو، جسے تم خرچ کرتے ہو، حالانکہ تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں، مگر یہ کہ اس کے بارے میں آنکھیں بند کرلو اور جان لو کہ بیشک اللہ بڑا بےپروا، بےحد خوبیوں والا ہے.
English:
O you who believe! Give of the good things you have earned, and from what We have produced for you from the earth. And do not pick the inferior things to give away, when you yourselves would not accept it except with eyes closed. And know that Allah is Sufficient and Praiseworthy.

*🥀تفسیر القرآن الكريم🥀*
🖋 فضيلة الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد (بھٹوی) حفظه الله تعالى
✍ "اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ ۔۔۔ ": اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریا کاری، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کرکے سمجھایا ہے.
✍ اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے، اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی. سيدنا براء بن عازب (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں اتری، ہم کھجوروں والے تھے تو ہر آدمی اپنے درختوں میں سے زیادہ یا کم درختوں کے مطابق لے کر آتا تھا، کوئی آدمی ایک خوشہ اور کوئی دو خوشے لا کر مسجد میں لٹکا دیتا. اہل صفہ کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ خوشے کے پاس آ کر اپنے عصا سے ضرب لگاتا تو اس میں سے نیم پختہ اور پختہ کھجوریں گر پڑتیں اور وہ کھا لیتا. کچھ لوگ جنھیں نیکی میں رغبت نہ تھی، وہ نکمّے اور ردی خوشے لے آتے اور ایسے خوشے بھی جو ٹوٹے ہوئے ہوتے اور انھیں لٹکا دیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔"
مطلب یہ کہ اگر تم میں سے کسی کو اس جیسا تحفہ دیا جائے جو اس نے دیا ہے تو وہ اسے کسی صورت نہ لے، مگر چشم پوشی اور حیا کی وجہ سے.
سيدنا براء (رضي الله عنه) فرماتے ہیں، اس کے بعد ہم میں سے ہر ایک اپنی سب سے عمدہ چیز لے کر آتا. [ترمذی،
التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ: ٢٩٨٧ و صححه الألباني]
✍ گو شان نزول میں نفل صدقے کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوٰۃ اور نفل صدقے دونوں کو شامل ہے.
سيدنا سہل (رضي الله عنه) فرماتے ہیں:
”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقے میں ”جُعُرُور“ اور ”لَون الحُبَیْق“ (دو ردی قسم کی کھجوریں) وصول کرنے سے منع فرمایا“. [أبوداوٗد، الزکوٰۃ، باب ما لا یجوز من الثمرۃ ۔۔: ١٦٠٧، و صححه الألباني]
✍ "وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ": میں ”لَسْتُمْ“ نفی کی تاکید ”بِاٰخِذِيْهِ“ کی باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں“ کیا گیا ہے.
✍ "اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔": لفظ "طیب" جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو، پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال طریقے سے کمایا ہوا مال خرچ کرو، خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا.
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ قبول نہیں کرتا مگر پاک کو“. [مسلم، الزکٰوۃ، باب قبول الصدقة ۔۔: ١٠١٥، عن أبی هریرۃ (رضي الله عنه)]
✍ "مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ": انسانی کمائی کے بڑے ذرائع چار ہیں: زراعت، صنعت، تجارت اور ملازمت. کمائی جس طریقے سے بھی ہو اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا پڑے گی. بعض لوگ کہتے ہیں مال تجارت میں زکوٰۃ نہیں، امام بخاری (رحمه الله تعالى) نے اس آیت سے استدلال کر کے ان کا رد فرمایا ہے. [بخاری، الزکوٰۃ، باب صدقة الکسب والتجارۃ، قبل ح: ١٤٤٥]
✍ البتہ زمین سے حاصل ہونے والی فصل کا عشر فصل اٹھاتے ہی ادا کرنا ہوگا، اگر نصاب کو پہنچ جائے، جو 600 کلو گرام ہے. اس آیت میں
"وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ"
سے مراد فصل پر عشر یا نصف عشر ہے. اگر پانی زمین سے کھینچ کر لگایا جائے تو 5 فیصد، اگر بارانی یا نہری ہو تو 10 فیصد.
تفصیل کے لیے دیکھیے: میرا رسالہ
”احکام زکوٰۃ و عشر“.
✍ "غَنِىٌّ حَمِيْدٌ": یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے مال کی ضرورت نہیں، وہ تو سب سے زیادہ بےپروا اور ہر تعریف کے لائق ہے، یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے.
والله تعالى أعلم.💐💎

MAIYAT PAR SUG?

♦•••══༻◉﷽◉༺══•••♦

         《✒حــــــــــــدیثِ رسول ﷺ》

      ♻ *میت پر سـوگ؟؟؟*

◻محمـد بن سیــرین کہتـے ہیـں کہ

● ام عـطیہؓ  کے ایک بیٹـے کا انتـقال ہو گیا۔

❖ انتـقال کے تیســرے دن انہـوں نے ”صفـرہ خلـوق“ ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منـگوائی اور اسـے اپنے بدن پر لگایا

◆ اور فــــــرمـایا کہ خـــــاوند کے سوا کسی دوســرے پر تیـن دن سے زیادہ سـوگ کرنے سے ہمیں منـع کیا گیا ہے

📚 سلسلہ صحیح بخاری :: 1279

📚•┈┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈┈•📚