شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں دسویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
دسویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
__________________

*محترم قارئین!* تقیہ کا معنی اور شیعوں کی نظر میں اس کے جائز بلکہ دین کا حصہ ہونے کی مختصر تفصیل اور اس پر شیعی کتب سے دلائل پچھلی قسط میں ہم نے بیان کیا تھا... آج کی قسط میں ہم ان شاء اللہ "تقیہ" کے تعلق سے کچھ مزید باتیں شیعوں کی زبانی رکھنے کی کوشش کریں گے...

*تقیہ کب اور کیسے؟*

شیعہ حضرات عوام الناس کے سامنے یہ باور کراتے ہیں کہ ہمارے یہاں تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب جان کا خطرہ ہو یا اس طرح کی کوئی شدید مجبوری ہو... لیکن ان کی کتابیں ان کی زبان کے برعکس کچھ اور کہتی ہیں وہ یہ کہ شیعی روایات میں ائمہ معصومین کے بکثرت ایسے واقعات اور روایات موجود ہیں کہ بغیر کسی مجبوری اور بغیر کسی ادنی خطرے کے بھی انہوں نے تقیہ کیا اور کھلی غلط بیانی کی یا اپنے عمل سے لوگوں کو دھوکہ اور فریب دیا.... آیئے نمونے کے طور پر ایک روایت کا تذکرہ کئے دیتے ہیں:

زرارہ نامی راوی امام باقر سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے فرمایا
"تقیہ ہر ضرورت کی چیز میں کیا جائے اور صاحبِ معاملہ اپنی ضرورت کے بارے میں زیادہ جانتا ہے (یعنی ضرورت وہ ہے جس کو صاحبِ معاملہ ضرورت سمجھے).... (اصول کافی 484)
اس روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شیعوں کا عوام الناس کے سامنے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے "جب جان جانے کا خطرہ ہو یا ایسی ہی کوئی شدید مجبوری ہو"... بلکہ ان کے مذہب میں تقیہ کے حوالے سے معاملہ ہر شخص کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے... جب بھی کوئی اپنی مصلحت یا مطلب سے تقیہ کی ضرورت سمجھے تقیہ کر سکتا ہے... یعنی یوں کہہ لیں کہ ان کی بنیادی تعلیمات میں جھوٹ بولنے کی ہر انسان کو کھلی آزادی ہے اور یہ سراسر اللہ کے حکم سے بغاوت ہے....

*تقیہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے*

گذشتہ تفصیل سے اگر آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے یہاں تقیہ جائز ہے تو ابھی ٹھہریں اور یہ حقیقت اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ شیعہ مذہب میں "تقیہ" صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری نیز دین و ایمان کا جزء ہے... ایک روایت ملاحظہ کریں...
امام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"اگر میں یہ کہوں کہ تقیہ نہ کرنے والا ایسے ہی گنہگار ہے جیسا کہ نماز کا ترک کرنے والا تو میری یہ بات صحیح اور سچ ہوگی اور مزید فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے"(من لا یحضرہ الفقيه بحوالہ تکملہ باقیات صالحات ص 216)

*محترم قارئین!* آپ دیکھیں کہ کتنی خوبصورتی سے تقیہ کو جائز ہی نہیں بلکہ واجب کہہ دیا گیا ہے اور اسی لئے آپ کو شیعی کتابوں میں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں ہی صورتوں میں تقیہ کی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی جس کے لئے آپ "الجامع الکافی" کے آخری حصہ "کتاب الروضة" کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات پوری طرح معلوم ہو جائے گی کہ یہ لوگ تقیہ یعنی جھوٹ بولنے کو واجب سمجھتے ہیں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں صورتوں میں بلکہ اللہ کی پناہ یہ دینی مسائل کے بیان میں بھی تقیہ سے کام لیتے ہیں جس کی وضاحت کے لئے میں صرف ایک روایت انہی کی کتاب سے ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں:
ابان بن تغلب نامی راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ
"میرے والد امام باقر بنو امیہ کے دور حکومت میں تقیہ کے طور پر فتوی دیتے تھے کہ باز یا شاہین جس پرندے کو شکار کریں اور وہ ذبح کرنے سے پہلے ہی مر جائے تو اس کا کھانا حلال ہے اور میں (امام جعفر صادق) اہل حکومت کے خوف سے اس مسئلہ میں تقیہ نہیں کرتا، میں فتوی دیتا ہوں کہ باز یا شاہین کا مارا ہوا پرندہ حرام ہے" (فروع کافی ج 2، جزء 2، ص 80)
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات کے یہ ائمہ تقیہ کے طور پر حرام کو حلال بھی بتلا دیتے ہیں اور یقیناً ان کے ماننے والے یعنی عوام ان کے فتوی کے مطابق اس حرام کو حلال سمجھ کر کھاتے تھے...... استغفر اللہ ولا حول ولا قوة الا بالله

بات اس سے آگے اور بڑھتی ہے تو یہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بھی ذلیل ترین تقیہ کی تہمت لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ فروع کافی جلد اول صفحہ ننانوے اور سو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اہل بیت خصوصاً حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوٰی کرنے والوں نے انہیں کس قدر پست کردار دکھایا ہے اور ان پر کس قدر ذلیل قسم کے تقیہ کی تہمت لگائی گئی ہے، اور صرف ان پر ہی نہیں بلکہ امام زین العابدین اور امام جعفر صادق پر بھی اسی طرح کی تہمتیں لگائی گئی ہیں.... معاذ اللہ

*نوٹ!* قارئین کے سامنے ائمہ کے حوالے سے جو روایات بیان کی جا رہی ہیں آپ ان سے یہ قطعی نہ سمجھیں کہ یہ سارے ائمہ واقعی ایسے تھے بلکہ ہمارا یقین ہونا چاہیئے کہ یہ سب اپنی جگہ محترم، مقدس اور پاکباز تھے لیکن شیعہ مذہب کے مصنفین اور راویوں نے ان کی طرف یہ خود ساختہ روایتیں منسوب کی ہیں، ان بزرگوں کا کردار اور ان کے دامن اس طرح کی منافقانہ بدکرداری، جھوٹ، دغا، فریب، دھوکہ اور تقیہ سے بالکل پاک ہے.....

(جاری ہے)
تقیہ کا باب مکمل ہوا لیکن باتیں ابھی باقی ہیں... اگلی قسط میں پڑھیں "شیعوں کا عقیدہ: نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے اور مزید ایک عقیدہ" عقیدہء رجعت"

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں نویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
نویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
__________________

*شیعوں کا عقیدہ: کتمان و تقیہ*

مذہب شیعہ کی اصولی تعلیمات میں "کتمان" اور "تقیہ" بھی شامل ہیں... آیئے سب سے پہلے ان دونوں لفظوں کا معنی و مطلب جان لیتے ہیں:

1- *کتمان:* اپنے عقیدہ اور مسلک و مذہب کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ کرنا
2- *تقیہ:* اپنے قول و عمل سے واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ و ضمیر کے خلاف ظاہر کرنا اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا

*کتمان اور تقیہ کی ضرورت کیوں؟*

ان دونوں الفاظ کا مطلب جان لینے کے بعد اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان کی ضرورت کیوں پیش آئی اور شیعوں نے کس لئے ان دونوں عقیدوں کو اپنایا؟....... تو کتب شیعہ کے مطالعہ کے بعد اس کا جواب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ "عبد اللہ بن سبا کے فیض یافتہ کوفہ کے جن لوگوں نے پہلی صدی ہجری کے اخیر اور دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں (یعنی امام باقر اور جعفر صادق کے زمانے میں) اثنا عشری مذہب تصنیف کیا یا یوں کہہ لیں کہ اس کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اس ناقابل تردید دلیل اور شہادت کی زد سے "عقیدہ امامت" اور "شیعہ مذہب" کو بچانے کے لئے یہ دو عقیدے وضع کئے، ایک "کتمان" جس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ان تمام ائمہ کو خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ وہ عقیدہ امامت کا اظہار نہ کریں بلکہ اس کو چھپائیں، اس لئے انہوں نے امامت کا عقیدہ عام مسلمانوں کے سامنے اور مجمع میں بیان نہیں کیا... اور دوسرا عقیدہ" تقیہ" کا تھا جس کی وجہ سے وہ تمام عمر اپنے اپنے ضمیر اور عقیدہ کے خلاف عمل کرتے رہے"..... بہر حال عقیدہ امامت (جس کی تفصیل و تشریح ہم اس سلسلے کی تیسری اور چوتھی قسط میں بیان کر چکے ہیں) کو بقیہ مسلمانوں کے طرز عمل کی زد سے بچانے کے لئے یہ دونوں عقیدے شیعوں نے ایجاد کئے....

*کتمان کے بارے میں شیعی کتب سے دلائل*

دنیا کا ہر مذہب خواہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اپنے آپ کو کسی سے چھپاتا نہیں ہے، لیکن شیعیت دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے آپ کو دوسروں سے چھپاتا پھرتا ہے، چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں "باب الکتمان" کے نام سے ایک مستقل باب ہے، اس باب میں امام جعفر صادق کے خاص مرید اور راوی سلیمان بن خالد سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ
"امام جعفر صادق نے فرمایا کہ: اے سلیمان! تم ایسے دین پر ہو کہ جو شخص اس کو چھپائے گا اللہ اس کو عزت دے گا اور جو اس کو ظاہر کرے گا اللہ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا" (اصول کافی 485)

ایک اور روایت امام باقر کے حوالے سے بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے شیعان خاص سے فرمایا کہ "مجھے اپنے اصحاب میں (شاگردوں اور مریدوں میں) وہ شخص سب سے زیادہ پیارا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو، دین کو زیادہ سمجھنے والا ہو اور ہماری باتوں کو زیادہ چھپانے والا اور راز میں رکھنے والا ہو" (اصول کافی 486)

آپ غور کریں کہ عزت و ذلت اور تقوی کی بنیاد اور ان کا معیار کیا بیان کیا جا رہا ہے؟ کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بنیاد اور معیار بیان کیا ہے؟ افلا تعقلون؟

*تقیہ کے بارے میں شیعی کتب سے دلائل*

تقیہ دراصل جھوٹ کا دوسرا اور خوبصورت نام ہے اور جھوٹ بولنا تمام مذاہب میں بدترین گناہ ہے، پوری دنیا کے عقل مند لوگوں نے بھی اس کو سخت ترین عیب تسلیم کیا ہے لیکن مذہب شیعہ نے اس کو اعلی ترین عبادت قرار دیا ہے، دین کے دس حصے بتلائے ہیں اور ان میں سے نو حصے جھوٹ بولنے کے لئے وقف کر دیئے ہیں، جھوٹ بولنا اللہ کا دین اور انبیاء و ائمہ کا دین بتایا گیا ہے... نعوذ باللہ من ذلك
چنانچہ اصول کافی میں " تقیہ" کا بھی مستقل باب ہے اور اس باب میں کئی روایتیں ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں:

1- أبو عمیر اعجمی نامی راوی کہتا ہے کہ "امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابو عمیر! دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے" (اصول کافی 482)

2- حبیب بن بشر راوی ہے، کہتا ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "اے حبیب! جو شخص تقیہ کرے گا اللہ اس کو رفعت اور بلندی عطا کرے گا اور جو تقیہ نہیں کرے گا اس کو اللہ پستی میں گرائے گا" (اصول کافی 483)

3- ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں.... امام باقر نے فرمایا کہ "تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے، جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں" (اصول کافی 484)

(جاری ہے)
تقیہ کے تعلق سے بقیہ باتیں ان شاء اللہ اگلی قسط میں

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں دوسری قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
دوسری قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*

.................. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ایک گمراہ کن عقیدے میں کچھ لوگوں کو مبتلا کرنے اور کامیابی ملنے کے بعد عبد اللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں طرح طرح کی غلو کی باتیں کرنا شروع کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قرابت کی بنیاد پر ان کے ساتھ غیر معمولی عقیدت و محبت کا اظہار کیا، ان کی طرف عجیب و غریب خود ساختہ "معجزے" منسوب کر کے ان کو ایک ما فوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں و سادہ لوحوں کا جو طبقہ اس کے پہلے فریب کا شکار ہوا تھا وہ ان ساری خرافات کو بھی قبول کرتا رہا... یہ اور اس طرح کی بہت ساری ڈھکوسلے بازیاں وہ پھیلاتا رہا اور یہ سب اس نے انتہائی ہوشیاری، رازداری اور یہودی فطرت کے مکر و فریب سے اس طرح کیا جس طرح زمین دوز خفیہ تحریکیں چلائی جاتی ہیں اور مصر کے علاوہ دوسرے بعض شہروں اور علاقوں میں بھی اس نے کچھ اپنے ہم خیال بنا لئے... اور پھر دنیا جانتی ہے کہ اس نے بہت سے سادہ لوحوں کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف جد و جہد پر آمادہ کر لیا اور خفیہ طور سے ایک لشکر لے کر مدینہ پہنچ گیا، قصہ مختصر یہ کہ آگے جو کچھ ہوا وہ تاریخ اسلامی کا ایک نہایت ہی "دردناک باب" ہے وہ یہ کہ داماد رسول، خلیفہ ثالث، ذو النورين حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس لشکر نے گھیر کر اور انہی کے گھر میں محصور کر کے قتل کر دیا... فلعنۃ اللہ علی الظالمين...

*عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد*

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس خونی فضا میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ اور امیر منتخب کیا گیا، وہ بلا شبہ خلیفہ برحق تھے، اس وقت ان سے بہتر زمام حکومت سنبھالنے والا کوئی اور موجود نہ تھا اور ان کی شخصیت اس عظیم منصب کے لئے قابل ترجیح بھی تھی لیکن عبد اللہ بن سبا کی اس خونی سازش کے نتیجے میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق امت مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی اور نوبت جدال و قتال تک پہنچ گئی، جنگ "جمل" و "صفین" جیسے خونی معرکے بھی ہوئے کہ جن میں بہت سارے صحابہ قتل کئے گئے، ان دونوں معرکوں میں عبد اللہ بن سبا اور اس کا پورا گروہ -جس کی اچھی خاصی تعداد ہو چکی تھی- حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس زمانہ اور اس فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اور کم فہم افراد کو "حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور عقیدت" کے عنوان سے "غلو" جیسی عظیم گمراہی میں مبتلا کرے، یہاں تک کہ اس نے کچھ سادہ لوحوں کو وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا اور ان کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ "حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں، ان کے قالب میں خداوندی روح ہے اور گویا وہی خدا ہیں".... کچھ احمقوں کے کان میں یہ بات ڈالی کہ اللہ نے نبوت و رسالت کے لئے دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا تھا، وہی اس کے مستحق اور اہل تھے اور حامل وحی حضرت جبرئیل علیہ السلام کو انہی کے پاس بھیجا گیا تھا لیکن اس کو اشتباہ ہو گیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمد بن عبد اللہ کے پاس پہنچ گیا........ استغفر اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ... اللہ پر بھی بہتان، جبریل پر بھی بہتان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا بھی انکار....

مورخین نے یہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی کہ انہی کے لشکر کے کچھ افراد ان کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھتے ہیں تو انہوں نے ان شیاطین کو قتل کرانے نیز لوگوں کی عبرت کے لئے انہیں آگ میں جلانے کا ارادہ کیا لیکن اپنے مشیر خاص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان جیسے کچھ اور لوگوں کے مشورے پر اس وقت کے خاص حالات میں اس کارروائی کو کسی دوسرے مناسب وقت کے لئے ملتوی کر دیا.... (بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے، انہیں اللہ تسلیم کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والے یہ شیاطین انہی کے حکم سے قتل کئے گئے اور آگ میں ڈالے گئے.... جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب منہاج السنۃ" میں اس کی وضاحت کی ہے....ج 1، ص 7)

بہرحال جنگ جمل اور صفین کی جنگوں کے زمانہ میں عبد اللہ بن سبا اور اس کے چیلوں کو اس وقت کی فضا سے فائدہ اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ان کے بارے میں غلو کی گمراہی پھیلانے کا پورا پورا موقع ملا، اس کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عراق کے علاقہ "کوفہ" کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا خاص مرکز بن گیا، چونکہ اس علاقہ کے لوگوں میں ایسے غلو آمیز اور گمراہ کن افکار و نظریات کے قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت تھی اس لئے یہاں اس گروہ کو اپنے مشن میں دوسرے جگہوں کی بہ نسبت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی................

جاری ہے

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد کے و نظریات کے آئینے میں تیسری قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
تیسری قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*

*شیعوں میں مختلف فرقے*

*محترم قارئین!* اب تک آپ کے سامنے جو تفصیل اختصار کے ساتھ پیش کی گئی وہ شیعیت کے آغاز اور اس کے بانی کے تعلق سے تھی، چونکہ یہ دعوت و تحریک خفیہ طور پر اور زمینی انداز میں چلائی جا رہی تھی اس لئے اس سے متاثر ہونے والے سب ایک ہی خیال اور عقیدے کے نہیں تھے، اس کے داعیان جس سے جو بات اور جتنی بات کہنا مناسب سمجھتے وہی کہتے اور اگر وہ قبول کر لیتا تو بس وہی اس کا عقیدہ بن جاتا... اسی وجہ سے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت یا ان کے اندر اللہ کی روح کے حلول کے قائل تھے،کچھ ایسے بھی تھے جو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل و اعلی اور نبوت و رسالت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام کی جانب سے غلطی کے قائل تھے... کچھ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد امام و امیر نیز خلیفہ سمجھتے تھے اور اسی بنا پر وہ خلفاء ثلاثہ (ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کو اور ان تمام صحابہ کرام کو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان حضرات کو خلیفہ مانا اور دل سے ان کا ساتھ دیا... ان سب کو معاذ اللہ یہ لوگ کافر و منافق یا کم از کم غاصب و ظالم اور غدار کہتے تھے... ان سب کے علاوہ بھی اس طرح کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے گروہ تھے... ان سب میں مشترک بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں "غلو" تھا اور اس غلو کے درجات ہر ایک کے نزدیک مختلف تھے... ابتدائی دور میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز الگ الگ فرقے نہیں بنے تھے... بعد میں مختلف اسباب کی وجہ سے ان کے اندر مختلف فرقے بنتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کی تعداد ستّر سے بھی زیادہ ہو گئی... جن کی کسی قدر تفصیل آپ "ابو الفتح محمد بن عبد الکریم الشهرستاني" کی کتاب "الملل و النحل" کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں.... ان فرقوں میں سے بہت سے تو وہ ہیں جن کا غالباً اب اس دنیا میں کہیں وجود نہیں، تاریخ کی کتابوں کے اوراق میں ہی ان کا نام و نشان باقی رہ گیا ہے، لیکن ان کے چند فرقے ہمارے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، ان میں تعداد کے لحاظ سے اور بعض دوسرے ناحیوں سے بھی "اثنا عشریہ" کو امتیاز اور اہمیت حاصل ہے... آگے ہم ان شاء اللہ اسی فرقے کے عقائد اور "ائمہ معصومین" کے حوالے سے ان کی خود ساختہ باتیں پیش کرنے کی کوشش کریں گے...

*شیعیت (اثنا عشریہ) اور اس کی بنیاد "مسئلہ امامت"*

شیعوں کا ایمان ہے کہ جس طرح اللہ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس کی طرف سے انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث کئے گئے جو "معصوم" ہوتے تھے اور ان کی بعثت سے ہی بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوتی تھی اور وہ ثواب یا عذاب کے مستحق ہوتے تھے بالکل اسی طرح اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے بندوں کی ہدایت کے لئے "امامت" کا سلسلہ قائم کر دیا ہے اور قیامت تک کے لئے بارہ امام نامزد کر دیئے ہیں، بارہویں امام پر دنیا کا خاتمہ اور قیامت یقینی ہے... یہ بارہ امام انبیاء علیہم السلام ہی کی طرح معصوم ہیں اور مقام و مرتبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے افضل و برتر اور بالاتر ہیں.... فنعوذ باللہ من الشیطان الرجیم..... ان اماموں کی اس امامت کو ماننا اور ان پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت کو ماننا اور ان پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے....

*بارہ اماموں کے اسماء:*

1-  حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
2-  حسن بن علی رضی اللہ عنہ
3-  حسین بن علی رضی اللہ عنہ
4-   علی بن حسین زین العابدین
5-   محمد بن علی باقر
6-   جعفر بن محمد صادق
7-   موسی بن جعفر کاظم
8-   علی بن موسی رضا
9-   محمدبن علی تقی
10- علی بن محمد نقی
11- حسن بن علی عسکری
12- محمد بن حسن مہدی موعود منتظر (شیعی عقیدے کے مطابق اب سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو سال پہلے 255 یا 256 ھجری میں محمد بن حسن مہدی پیدا ہو کر 4 یا 5 سال کی عمر میں معجزانہ طور پر غائب ہو گئے اور اب تک زندہ ایک غار میں روپوش ہیں..... ان پر امامت کا سلسلہ ختم ہو گیا.... لیکن یاد رہے کہ آخری امام کے تعلق سے یہ شیعوں کا عقیدہ ہے... تاریخی شہادت اور تحقیقی بات یہ ہے کہ حسن بن علی عسکری کا کوئی بیٹا پیدا ہی نہیں ہوا پھر محمد بن حسن مہدی موعود منتظر کا وجود کہاں سے؟..........................

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات اور "ائمہ معصومین" کے ارشادات"......

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئنیے میں

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
پہلی قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*

*تمہید*

اسلام کی آفاقیت اور اس کی عالمگیری نیز اس کی شان و شوکت دشمنانِ اسلام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے... اسلام دشمن طاقتیں اول دن سے ہی اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں، خوارج و نواصب کا فتنہ ہو یا روافض و شیعوں کا، خلقِ قرآن کا فتنہ ہو یا اعتزال کا... مرجئہ، جہمیہ، قدریہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ جیسے فرق ضالہ کے فتنے ہوں یا علماء سوء کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ ہو یا انکارِ ختم نبوت کا... یہ اور اس طرح کے بہت سارے فتنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سر ابھارتے رہے ہیں لیکن ان تمام فتنوں میں جو فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا اسے ہم "روافض، شیعہ، اثنا عشریہ" کے مختلف ناموں سے جانتے ہیں... زیر نظر تحریر میں ہم ان شاء اللہ اسی فتنے اور فتنہ پروروں کی ریشہ دوانیوں کا مختصر تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے...

*آغاز کلام*

شیعیت کے نام سے مشہور اس فتنے کی جڑیں بڑی مضبوط، گہری اور بہت لمبی ہیں، اس فتنے کا روح رواں "عبد اللہ بن سبا" نامی یہودی ہے، وجود میں آنے کے بعد یہ فتنہ روز بروز ترقی کرتا رہا، زیرِ زمین اور پس پردہ اس کی سرگرمیاں جاری رہیں اور آج تک جاری ہیں... اس فرقہ کو جب بھی موقع ملا تو اس نے مسلمانوں کو اور ان کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا کام بخوبی انجام دیا، اس فرقہ کو بعض اوقات اقتدار بھی ملا تو اس نے ان مواقع سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا، کبھی بیت اللہ پر حملہ کیا، کبھی حجر اسود کو اٹھا کر لے گئے، مسلمانوں کا قتل عام کیا، علماء کو سر عام ذلیل و رسوا کر کے انہیں ظلم کی چکّی میں پیستے ہوئے شہید کر دیا...وغیرہ وغیرہ........
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے "شیعوں" کے رویے کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: "روافض یہود و نصارٰی، تاتاری اور مشرکین وغیرہ جیسے دشمنان اسلام کا ساتھ دیتے ہیں اور اللہ کے اُن مخلص بندوں سے بغض و عداوت رکھتے ہیں جو اعلی درجے کے دیندار اور متقین کے سردار تھے، جو دین کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی حفاظت کرنے والے تھے... تاتاریوں کے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے اور راہ پانے میں سب سے زیادہ دخل ان روافض اور شیعوں ہی کا تھا... اب علقمی اور طوسی وغیرہ کی دشمن نوازی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں زبان زد خاص و عام ہو چکی ہیں... شام میں جو روافض تھے انہوں نے بھی کھلم کھلا طور پر کافروں کا ساتھ دیا تھا اور اس وقت عیسائیوں کی انہوں نے پوری مدد کی تھی یہاں تک کہ مسلمانوں کے بچوں اور ان کی مملوکات کو ان لوگوں نے ان عیسائیوں کے ہاتھوں غلاموں کی طرح بیچ دیا تھا بلکہ ان کے کچھ لوگوں نے تو صلیبی جھنڈا بھی بلند کیا تھا اور گزشتہ دور میں عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا"... (منہاج السنة ج 4 ص 110)
(مستفاد از کتاب "خمینی اور شیعیت کیا ہے؟ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ ص 4-3)

*بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی*

*محترم قارئین!* جیسا کہ پہلے ہی یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ شیعیت کا بانی *عبد اللہ بن سبا* نامی یہودی ہے، اس شخص نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا، لیکن در حقیقت یہ مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی خلاف لا کھڑا کیا اور بعد میں اس کا جو کردار سامنے آیا اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس نے بری نیت سے ہی یہودیت ترک کر کے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کا اصل مقصد مسلمانوں میں شامل ہو کر اور اپنے ناز و ادا اور کرتبوں سے ان میں مقبولیت حاصل کر کے اندر سے اسلام کی تخریب و تحریف اور اہل اسلام کے درمیان اختلاف و شقاق پیدا کر کے فتنہ و فساد برپا کرنا تھا... آغاز مرحلے میں مدینہ منورہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس نے اپنی ذہانت سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں اور پورے حجاز کے علاقے میں دینی شعور کے حامل افراد موجود ہیں اور یہاں دین کے ایسے محافظ بستے ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اس لئے پہلے وہ بصرہ اور پھر شام چلا گیا، یہاں بھی اس کو اپنے منصوبے کے مطابق کام کرنے کا موقع نہیں ملا، اس کے بعد وہ مصر پہنچا جہاں اسے کچھ ایسے افراد مل گئے جن کو وہ اپنا آلہء کار اور اپنی مفسدانہ مہم و سرگرمیوں میں حصہ دار و مددگار بنا سکے... مورخین کا بیان ہے کہ اس نے لوگوں میں سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ "مجھے اُن مسلمانوں پر تعجب ہے جو عیسی علیہ السلام کے تعلق سے تو اس دنیا میں دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسی علیہ السلام سمیت تمام انبیاء و رسل سے افضل و بہتر ہیں، آپ یقیناً اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے"....... حقیقت میں یہ بات بالکل اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی اور اسلام کے بنیادی عقائد سے اس کا ٹکراؤ تھا لیکن اس کے باوجود بھی کچھ جاہل اور کم تربیت یافتہ افراد اس کے اس کفریہ عقیدے کا شکار ہوگئے اور انہوں نے اس کی بات کو قبول کر لیا..........

(ذیلی عنوان کا بقیہ حصہ آگے ان شاء اللہ)
(جاری ہے)

+919022045597