MOHAMMAD (S.A.W.) AUR BHARTIY DHARMGHARANTH PART 1

🇮🇳Part 1 🇮🇳
بسم الله الرحمن الرحيم 🌹

हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) और भारतीय धर्मग्रन्थ

सत्य हमेशा स्पष्ट होता है। उसे किसी तरह के दलील की ज़रूरत नहीं होती। यह बात और है कि हमउसे समझ न पाएं या कुछ लोग हमें इससे दूर रखने का कुप्रयास करें। अब यह बात छिपी नहीं रही कि वेदों, उपनिषदों और पुराणोंमें इस सृष्टि के अंतिम पैग़म्बर (संदेष्टा) हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) के आगमन की भविष्यवाणियां की गई हैं। मानवतावादी सत्य गवेषी विद्वानों ने ऐसे अकाट्य प्रमाण पेश कर दिए, जिससे सत्य खुलकर सामने आ गया है।
वेदों में जिस उष्ट्रारोही (ऊंट की सवारी करनेवाले) महापुरुष के आने की भविष्यवाणी की गई है, वे मुहम्मद (सल्ल.) ही हैं। वेदों के अनुसार उष्ट्रारोही का नाम ‘नराशंस’ का अरबी अनुवाद ‘मुहम्मद’ होता है। ‘नराशंस’ के बारे में वर्णित समस्त क्रियाकलाप हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) के आचरणों और व्यवहारों से आश्चर्यजनक साम्यता रखते हैं। पुराणों और उपनिषदों में कल्कि अवतार की चर्चा है, जो हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) ही सिद्ध होते हैं। कल्कि का व्यक्तित्व और चारित्रिक विशेषताएं अंतिम पैग़म्बर (सल्ल) के जीवन-चरित्र को पूरी तरह निरूपित करती है। यही नहीं उपनिषदों में साफ़ तौर से हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) का नाम आया है और उन्हें अल्लाह का रसूल (संदेशवाहक) बताया गया है। पुराण और उपनिषदों में यह भी वर्णित है कि ईश्वर एक है। उसका कोई भागीदार नहीं है। इनमें ‘अल्लाह’ शब्द का उल्लेख कई बार किया गया है। बौद्धों और जैनियों के धर्मग्रन्थों में भी हज़रत मुहम्मद (सल्ल.) के बारे में भविष्यवाणियां की गई हैं।

इन सच्चाइयों के आलोक में मानव मात्र को एक सूत्र में बांधने और मानव एकता एवं अखंडता को मज़बूत करने के लिए सार्थक प्रयास हो सकते हैं। यह समय की मांग भी है। वैमनस्यता और सांप्रदायिकता के इस आत्मघाती दौर में यह सच्चाइयां मील का पत्थर साबित हो सकती हैं। भाई-भाई को गले मिलवा सकती है और एक ऐसे नैतिक और सद् समाज का निर्माण कर सकती हैं, जहां हिंसा, शोषण, दमन और नफ़रत लेशमात्र भी न हो। इन्हीं उद्देश्यों को लेकर सभी सच्चाइयों को एक साथ आपके समक्ष प्रस्तुत किया जा रहा है। इस कोशिश में हमें कितनी सफलता मिली यह आप ही बताएंगे। उम्मीद है कि यह सच्चाइयां दिल की गहराइयों में उतर कर हम सभी को मानव कल्याण के लिए प्रेरित करेंगी। प्रस्तुत पुस्तिका में डॉ. वेद प्रकाश उपाध्याय के शोध ग्रन्थों ‘नराशंस और अंतिम ऋषि’ और ‘कल्कि अवतार और मुहम्मद साहब’ के अलावा अन्य स्रोतों से प्राप्त तथ्यों एवं सामग्रियों का समावेश किया गया है।
🌷🌷🌷
NON MUSLIM BROTHER AND SISTER KE LIYE FREE QURAN CONTACT KIJYE MAKTABA AL FURQAN SAMI 9998561553
🌹🌹🌹 Follow this link to join my WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/EWFXXC0JUiG1tJlb7Pm5rt

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں آٹھویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
آٹھویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
_______________

*محترم قارئین!* پچھلی قسط میں ہم نے تحریف قرآن کی تین مثالیں ذکر کی تھیں، اس قسط میں ہم مزید دو مثالوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

4- شیعہ مفسر القمی اپنے معصوم اور واجب الاطاعت امام ابو الحسن موسی الرضا سے نقل کرتا ہے کہ وہ آیت الکرسی کو اس طرح پڑھا کرتے تھے "الم اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَهٌ وَ لاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الأَرْضِ وَمَا بَینَھُمَا وَمَا تَحتَ الثَّری، عَالمُ الغَیبِ وَالشَّھَادَۃِ، الرَّحمنُ الرَّحِیمُ" (تفسیر القمی ج 1 ص 84)
آیت الکرسی میں بھی تحریف کے مجرم ہیں یہ لوگ....

5- یہی مفسر القمی سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 "لَهُ مُعَقّبَاتٌ من بَینِ یَدَیهِ وَمن خَلفِه" کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
"کسی نے امام جعفر صادق کی موجودگی میں اس آیت کی تلاوت کی جس کا معنی یہ ہے کہ" ان میں سے ہر ایک کے لئے پہرے دار ہیں اس کے سامنے اور اس کے پیچھے، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں".....
اس آیت کو سن کر امام صاحب فرمانے لگے:" کیا تم عرب نہیں ہو؟ کَیفَ تَکُونُ المُعَقّبَاتُ من بَین یَدَیهِ" یعنی "معقبات" (پیچھے رہنے والے) سامنے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ "معقب" تو پیچھے رہ جانے والے کو کہا جاتا ہے؟
اس آدمی نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، پھر یہ آیت کس طرح ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی "لَهُ مُعَقّبَاتٌ من خَلفِه وَرَقِیبٌ من بَین یَدَیه یَحفَظُونَه بِاَمرِ اللّه" یعنی اس کے لئے پہرے دار ہیں پیچھے اور نگہبان ہے آگے جو اللہ کے حکم اس کی حفاظت کرتے ہیں" (تفسیر القمی ج 1 ص 360)

اس روایت میں شیعہ مفسر کے بقول امام جعفر صادق نے اس آیت کے پڑھنے والے کو عربی قواعد سے نا واقف قرار دیا ہے... حالانکہ اگر غور کیا جائے تو بقول شیعہ خود امام صاحب ہی عربی سے نا واقف قرار پاتے ہیں... اس لئے کہ اہل عرب "المعقب" کو دو معنوں میں استعمال کرتے ہیں، ایک معنی ہے "الذی یجیئ عقب الآخر" یعنی جو کسی کے پیچھے آئے، دوسرا معنی ہے "الذی یکرر المجیئ" یعنی جو بار بار آئے.... اور اس آیت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے.... (مستفاد از: الشیعة والسنة علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 111-110)

*تحریف قرآن کے باطل عقیدے کی تردید قرآن سے*

*محترم قارئین!* ہم نے تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے والوں کی باتیں اور اس کی چند مثالیں انہی کی کتابوں سے آپ کے سامنے رکھی... یہ تو صرف کچھ مثالیں ہیں ورنہ اس طرح کی باطل تاویلات کر کے انہوں نے پوری امت مسلمہ خصوصاً صحابہ کرام اور اخص الخاص خلفاء ثلاثہ کو خائن و فاسق اور کافر و فاجر قرار دیا ہے.... اب آیئے ہم ان کے اس باطل عقیدے کی تردید خود موجودہ قرآن کی چند آیتوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
1- اللہ فرماتا ہے "ذلك الکتاب لا ریب فيه" یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں (البقرة 1)
2- ارشاد باری تعالٰی ہے "لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حميد" قرآن مجید پر باطل اثر انداز نہیں ہو سکتا نہ اس کے سامنے سے نہ پیچھے سے، یہ اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہے جو صاحب حکمت اور قابل تعریف ہے (حم السجدة 42)
3- ارشاد ربانی ہے "إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون" قرآن کو نازل بھی ہم نے ہی کیا ہے اور اس کی حفاظت بھی ہمارے ذمے ہے (الحجر 9)
4- اللہ کا فرمان ہے "إن علينا جمعه وقرآنه" قرآن کو جمع کرنا اور اس کی قرات کا اہتمام کرنا ہماری ذمہ داری ہے (القیامۃ 17)
5- اللہ کہتا ہے "کتاب أحكمت آياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير" یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم کیا گیا پھر ان کی تفصیل بیان کی گئی اس کی طرف سے جو حکیم و خبیر ہے (ھود 1)
6- قرآن میں اللہ نے فرمایا "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" اے رسول! آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اس کی تبلیغ کریں (المائدۃ 27)..... اب اگر بندہ یہ کہے کہ قرآن مکمل نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خائن قرار دے رہا ہے اور بلا شک ایسا سمجھنا انسان کو کافر بنا دیتا ہے....
7- ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے "إن هذا القرآن يهدي للتي هي أقوم" یہ قرآن سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے (بنی اسرائیل 9).... گویا کہ قرآن مکمل نہیں ہے کا عقیدہ رکھنا اس گمراہی کی طرف لے جاتا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے اور یہ سراسر اللہ پر بہتان اور افتراء ہے اور ایسے شخص سے بڑا کوئی ظالم نہیں ہو سکتا... وَمَن اَظلَمُ مِمَّنِ افتَرَی عَلَی الله کذبا أو کذب بآیاته ".......

(جاری ہے)
آگے پڑھیں ان شاء اللہ "شیعوں کا عقیدہ: کتمان و تقیہ

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں ساتویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
ساتویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
________________

*محترم قارئین!* پچھلی قسط میں ہم نے شیعوں کے ایک عقیدے "موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے" کی وضاحت کی کوشش کی تھی اور اس کے ضمن میں ہم نے یہ بات بھی بیان کی تھی کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق "قرآن میں حذف و تحریف کس نے کی"....... اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے اور اس میں صرف ایک تہائی آیات ہی درج ہیں، بقیہ دو تہائی آیتوں کو ختم کر دیا گیا تو اصلی قرآن کہاں ہے؟ اور وہ آج تک منظر عام پر کیوں نہیں آیا؟.... تو آج کی اس قسط میں ہم ان شاء اللہ اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے....

*اصلی قرآن کہاں ہے؟*

یہ بات بھی مذہب شیعہ اور شیعی دنیا کے معروف مسلّمات میں سے ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مرتب کرایا تھا وہ اس کے بالکل مطابق تھا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور موجودہ قرآن سے مختلف تھا، وہ حضرت علی کے پاس ہی رہا اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے ہونے والے ائمہ کے پاس رہا اور اب اصلی قرآن اس امام کے پاس موجود ہے جو غار میں چھپ گئے تھے اور اب تک وہیں روپوش ہیں، جب وہ ظاہر ہوں گے تو اس اصلی قرآن کو بھی ظاہر کریں گے، اس سے پہلے کوئی بھی اصلی قرآن نہیں دیکھ سکتا....

اب آیئے ان کے اس عقیدے پر ان سے ہی دلیل مانگتے ہیں.... مشہور شیعہ مصنف احمد بن ابی طالب طبرسی (متوفی 588ھ) اپنی کتاب میں لکھتا ہے: "جب امام غائب ظاہر ہوں گے تو ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ اور آپ کی تلوار ہوگی، ان کے پاس ایک رجسٹر ہوگا جس میں قیامت تک کے شیعوں کے نام درج ہوں گے، ان کے پاس " الجامعہ" بھی ہوگا جو کہ ایک رجسٹر ہے جس کی لمبائی ستّر ہاتھ ہے اور اس میں انسانی ضرورت کی ہر چیز کا ذکر ہے نیز ان کے پاس "حفر اکبر" بھی ہوگا جو کہ چمڑے کا ایک برتن ہے جس میں تمام علوم بھرے ہوئے ہیں حتی کہ خراش کی دیت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے اور ان کے پاس مصحف فاطمہ یعنی حضرت فاطمہ علیہا السلام والا قرآن بھی ہوگا"..... (الاحتجاج علی اھل اللجاج للطبرسی، مقدمہ)
(مستفاد از الشیعۃ والسنۃ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 102)
بعض شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصے کا علم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو تھا کیونکہ بعض اوقات نزول وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی موجود ہوتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ آیات جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھیں انہوں نے جمع کیں، باقی صحابہ کو ان آیات کا علم نہ تھا اور یوں موجودہ قرآن اصلی نہ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس والا قرآن اصلی ثابت ہوا.....
غور سے پڑھیں قارئین! کہ کتنی ڈھٹائی سے پوری شیعہ برادری نے صحابہ کرام کی پاکباز جماعت کو مطعون قرار دے دیا اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا صدیق اکبر، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم سمیت چار کے علاوہ تمام صحابہ سے بغض و عناد رکھنے والے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

*تحریف قرآن کی چند مثالیں*

دو ذیلی عناوین کی وضاحت کے بعد اب آیئے ان کے اپنے خیال کے مطابق قرآن میں کی جانے والی چند تحریفات کو بھی دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں:

1- سورہ أحزاب کی آیت نمبر 71 میں اللہ فرماتا ہے "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَد فَازَ فوزاً عَظِیماً" یعنی جو اللہ اور اس کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا..... اس آیت کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں جیسا کہ اصول کافی میں ابو بصیر کی روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "یہ آیت اس طرح نہیں، بلکہ اس طرح نازل ہوئی تھی "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فی وِلَایَۃِ عَلِیٍّ وَالائمۃ مَن بَعدَہ فَقَد فَازَ فوزاً عَظیماً" یعنی جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا....... مطلب یہ ہوا کہ اس آیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کی امامت کے بارے میں صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا تھا لیکن اس میں سے "في ولاية علي والأئمة من بعده" کے الفاظ نکال دیئے گئے، جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے" (اصول کافی ص 262)

2- سورہ نساء کی آیت نمبر 66 میں اللہ فرماتا ہے "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں کی گئی اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا............... اس آیت کے سلسلے میں اصول کافی کی ہی ایک روایت ملاحظہ کریں کہ امام باقر فرماتے ہیں "سورہ نساء کی آیت نمبر 66 اس طرح نازل ہوئی تھی "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ فِي عَلِیٍّ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں علی کے بارے میں کی گئی ہے اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا........ مطلب یہ ہے کہ اس آیت کا خاص تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تھا لیکن اس میں سے "فِی عَلِیٍّ" نکال دیا گیا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے..... (اصول کافی 267)
(مستفاد از ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت مولانا منظور نعمانی ص 254)

3- محسن الکاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ قرآن کی آیت "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ وَالمُنَافِقِینَ" (اے نبی! آپ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) اہل بیت کی قرات کے مطابق یوں ہے "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ بِالمُنَافِقِینَ" یعنی اے نبی! آپ کفار سے جہاد کرو منافقین کو ساتھ ملا کر"..... ( تفسیر الصافی للکاشی ج 1 ص 214)...... لا حول ولا قوۃ الا باللہ

(جاری ہے)
تحریف قرآن کا عقیدہ اور اس کی تردید کے متعلق بقیہ باتیں ان شاء اللہ اگلی قسط میں

*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں چہٹی قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
چھٹی قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
_________________

*شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں بلکہ تحریف شدہ ہے*

*محترم قارئین!* اب تک ہم نے بہت ساری باتیں شیعوں کے عقائد و نظریات کے تعلق سے بیان کی ہیں، آج کی اس قسط میں ہم ان شاء اللہ ان کے عقائد میں سے ایک اور مذموم عقیدہ "موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے" کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے.......... لیکن ان کے عقیدے کو بیان کرنے سے پہلے ہمارے لئے اس بات کا جاننا نہایت ہی ضروری ہے کہ "اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن مجید ایک مکمل کتاب ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، نہ اس میں کسی آیت یا لفظ کا اضافہ ہوا اور نہ ہی کمی، شروع زمانے سے لے کر اب تک یہ کتاب اپنی حقیقی شکل و صورت اور عبارت کے ساتھ باقی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ قیامت تک قرآن مجید کے کسی ایک حرف کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکے گا".... ان شاء اللہ...... یہ تو اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے.... جہاں تک شیعہ قوم کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک قرآن مجید اپنی اصلی شکل و صورت میں محفوظ نہیں ہے، بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق قرآن کی بہت سی آیات میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ حذف کر دیا گیا ہے،ان کے نزدیک موجودہ قرآن اصلی قرآن نہیں ہے..... اب آیئے ہم اپنی اس بات کے لئے شیعوں ہی کی کتاب سے چند نصوص اور بنیادی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

*نص نمبر 1:* شیعوں کا ایک معتبر عالم کلینی اپنی کتاب "الکافی فی الاصول" میں حضرت جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا: "وہ قرآن جو حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تھے اس کی 17 ہزار آیات تھیں" (الکافی فی الاصول للکلینی ج 2 ص 634)......جبکہ موجودہ قرآن کی کل آیات کی تعداد چھ ہزار سے کچھ اوپر ہے جس طرح کہ خود شیعہ مفسر ابو علی الطبرسی نے اپنی تفسیر میں اس بات کا یوں اقرار کیا ہے کہ "قرآن کی آیات کی تعداد 6236 ہے" (تفسیر مجمع البیان للطبرسی ج 10 ص 407)........ (مستفاد از "الشیعہ والسنۃ" علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 87)

*نص نمبر 2:* شیعہ محدث صفار (کلینی کا استاد) کی کتاب میں حضرت باقر سے روایت ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ"اے لوگو! میں تمہارے پاس تین چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں... قرآن مجید.... اہل بیت...... کعبہ...... یہ اللہ کی طرف سے مقدس شعائر ہیں لہذا تم ان کی حفاظت کرنا"..... حضرت باقر اس روایت کے آگے فرماتے ہیں کہ "مگر افسوس! انہوں نے قرآن میں تبدیلی کر دی، کعبہ کو منہدم کر دیا اور اہل بیت کو قتل کر ڈالا" (بصائر الدرجات للصفار جزء 8 باب 17)

*قران مجید میں حذف و تحریف کس نے کی؟*

شیعوں کے قرآن مجید کے تعلق سے اس مذموم عقیدے کی وضاحت کے بعد اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر قرآن مجید میں تبدیلی اور حذف کا کام کس نے کیا؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے خود شیعی مورخین و مصنفین لکھتے ہیں کہ "قرآن مجید میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے معاذ اللہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اور اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی نیت سے دیگر صحابہ کرام کے ساتھ سازش کر کے اصلی قرآن کو غائب کر دیا اور اس کی جگہ اپنی مرضی کا ایک قرآن مرتب کرایا جس میں سے وہ تمام آیتیں نکال دی گئیں جن میں ان کے عیوب و نقائص اور اہل بیت کے فضائل و مناقب کا ذکر تھا".....

کمال الدین البحرانی نہج البلاغہ کی شرح میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر الزامات و اتہامات عائد کرتے ہوئے ذکر کرتا ہے کہ "عثمان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس نے لوگوں کو زید بن ثابت کی قرات پر جمع کیا اور بقیہ نسخوں کو جلا دیا، اسی طرح عثمان بن عفان نے قرآن مجید میں سے بہت سی ایسی آیات ختم کر دیں جو بلا شک و شبہ قرآن کا حصہ تھیں" (شرح نہج البلاغہ للبحرانی)

ایک اور شیعہ محدث نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب میں لکھتا ہے "قرآن مجید کو اصلی شکل و صورت میں یعنی جس طرح اللہ نے آسمان سے نازل کیا حضرت علی امیر المومنین کے سوا کسی نے جمع نہیں کیا" (الانوار النعمانیہ از نعمت اللہ الجزائری)

کلینی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے جابر جعفی سے روایت کرتا ہے کہ اس نے کہا: "میں نے امام باقر علیہ السلام کو کہتے سنا ہے کہ "اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ مکمل قرآن جمع کیا ہے تو وہ کذاب ہے"....."مَا جمعه و حفظه كما أنزل إلا على بن أبى طالب رضي الله عنه والأئمة بعده" یعنی مکمل قرآن حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے دوسرے اماموں کے سوا کسی نے جمع اور حفظ نہیں کیا ہے" (اصول کافی للکلینی ج 1 ص 228)......
گویا شیعہ دین کے مطابق کوئی شخص اگر یہ دعوی کرے کہ صدیق و فاروق اور ذو النورين رضی اللہ عنہم کا جمع کردہ قرآن مکمل ہے تو وہ کذاب ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ پورے قرآن کا حافظ ہے تو وہ بھی جھوٹا ہے..... اللہ المستعان و علیہ التکلان..... اسی بنا پر آپ دیکھیں گے کہ شیعہ قوم نہ صرف یہ کہ قرآن مجید حفظ نہیں کرتی بلکہ حفاظ قرآن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.... فلعنۃ اللہ علیہم و الملائکۃ والناس اجمعین

(جاری ہے)
*+919022045597*

شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں پانچویں قسط

*شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں*
پانچویں قسط
*حافظ خلیل سنابلی، ممبئی*
_________________

*محترم قارئین!* پچھلی قسط میں ہم نے آپ کے سامنے "اماموں کے تعلق سے شیعوں کے عقائد" کا تذکرہ کیا تھا، آج کی قسط میں ہم ان شاء اللہ "صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد" کو بیان کریں گے جنہیں پڑھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر اللہ و رسول کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام سے ان کے بغض و کینہ کا معیار بھی آپ کو معلوم ہوگا... آئیے اب ہم "صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے چند بنیادی عقائد" کا ذکر کرتے ہیں...

*صحابہء کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد*

1- حضرت علی کی ولایت و امامت نہ ماننے کی وجہ سے خلفاء ثلاثہ اور عام صحابہ قطعی طور سے کافر و مرتد
.......استغفر اللہ ربی من کل ذنب.......
مزید آگے لکھتے ہیں کہ "قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر 137 فلاں اور فلاں اور فلاں (ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ تینوں شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جب ان کے سامنے حضرت علی کی ولایت و امامت کا مسئلہ پیش کیا گیا تو یہ تینوں اس سے منکر ہو گئے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے انہوں نے بیعت کر لی اور اس طرح پھر ایمان لے آئے، پھر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو پھر یہ امیر المومنین (علی رضی اللہ عنہ) کی بیعت کا انکار کر کے کافر ہو گئے، پھر یہ کفر میں اور آگے بڑھ گئے، پھر جب ان لوگوں نے اُن لوگوں سے بھی بیعت لے لی جو امیر المومنین سے بیعت کر چکے تھے تو اب یہ ایسے ہو گئے کہ ان میں ذرا سا بھی ایمان باقی نہیں رہا"
..........نعوذ باللہ من الشیطان الرجیم...........
آپ دیکھیں کہ کس طرح دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں نے کافروں و منافقوں سے متعلق ایک آیت کو خلفاء ثلاثہ پر چسپاں کر دیا اور انہیں کافر و مرتد قرار دے دیا...

2- "ایمان" کا معنی امیر المومنین علی، "کفر" کا مطلب ابو بکر، "فسق" سے مراد عمر اور "عصیان" سے مراد عثمان (معاذ اللہ)
سورہ الحجرات کی آیت نمبر 7 میں اللہ نے ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی، تمہارے دلوں ایمان سے مزین کر دیا، اور کفر و فسق نیز معصیت کی نفرت تمہارے اندر پیدا کر دی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں"
.......... اب دیکھیں شیعوں کے خبیث ذہن کی کارکردگی.........
یہ لوگ کہتے ہیں کہ "حَبَّبَ اِلَیکُمُ الاِیمَانَ" میں ایمان کا مطلب امیر المومنین علیہ السلام کی ذات، اور آگے "کَرَّہَ اِلَیکُمُ الکُفرَ وَالفُسُوقَ وَالعِصیَانَ" میں کفر کا مطلب ہے ابو بکر، فسق کا مطلب ہے عمر اور عصیان کا مطلب ہے عثمان.... (لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)
3- عام صحابہ کرام خصوصاً خلفاء ثلاثہ کافر و مرتد، اللہ و رسول کے غدار، جہنمی و لعنتی
4- شیخین (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی لعنت
5- ابو بکر کی بیعت سب سے پہلے ابلیس نے کی تھی
6- عمر بن الخطاب کا یوم شہادت سب سے بڑی عید کا دن
7- امام غائب جب ظاہر ہوں گے تو شیخین کو قبروں سے نکالیں گے اور زندہ کر کے ہزاروں بار سولی پر چڑھائیں گے
8- عائشہ و حفصہ منافقہ تھیں، انہوں نے حضور کو زہر دے کر مار دیا....

*محترم قارئین!* ان کے علاوہ حضرت خالد بن ولید، عبد اللہ بن عمر، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اجلہ و بزرگ صحابہ کو بھی یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ اپنے مطلب کی بات کے لئے یہ خود ساختہ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں جبکہ اہل و سنت و الجماعت کا صحابہ کے تعلق سے یہ مسلک ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں، اور ان کی عظمت و مقام کو بتانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حدیث مبارکہ کافی و شافی ہے جو بخاری (3397) و مسلم (4611) میں ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي؛ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ».
"میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تب بھی وہ کسی ایک صحابی کی جانب سے خرچ کئے گئے ایک مد یا آدھا مُد کے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا".... واضح رہے کہ ایک مد تقریباً چھ سو گرام کا ہوتا ہے... ایک طرف صحابہ کی عظمت کے تعلق سے زبان رسالت سے یہ فرمان نکلتا ہے تو دوسری طرف یہ شیعہ حضرات انہی صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، انہیں کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور انہیں قرآن میں تحریف کرنے والا سمجھتے ہیں، انہیں غاصب و خائن جیسے القاب سے پکارتے ہیں، ان کے بارے میں طرح طرح کی خرافاتی روایات اپنے ائمہ کی طرف منسوب کر کے بیان کرتے ہیں...... خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ یہ قوم یہودیوں کے نقش قدم پر مکمل طور سے چل رہی ہے بلکہ ان سے بھی دو چار قدم آگے ہے....

(جاری ہے)
آگے  پڑھیں "شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے بلکہ تحریف شدہ ہے" ان شاء اللہ

*+919022045597*