ALLAH ARSH PE HaI

Bismillahirrahmanirraheem

Charo imamo rh k aqwaal k baad degar tabayi aur taba tabayi k aqwaal paish e khidmat hai, jis tarha charo imamo ka zikr karte hue unki tareekh e wafaat likhi thi in sha Allah isi tarha ab jin jin buzurgaan e deen ka zikr karunga unki tareekh e wafaat bhi zikr karunga

1. Masrook bin ajdaa al hamdaani koofi rahimahullah (tabayi tareekh e wafaat 62 hijri)
inhone bahut se sahaba RA se sunnat e Rasool SAW afzal salaat wa tasleem ka ilm hasil kiya aur aagey pahunchaya, jab ye emaan walo ki maa Aisha RA se koi hadees riwayat karte to kaha karte: mujhe siddeque ki beti siddeqa, Allah k habeeb ki habeebiya, jis ki baraat 7 aasmano k uper se hue, ne bataya: aur phir hadees bayan karte imam ibne qayyim rh ne "IJTAMA  JAYUSH AL ISLAMIYA" mai is qaul ko sahih karaar diya.

2. Sufyan suri rahimahullah (tabayi tareekh e wafaat 161 hijri)
kehte hai k mai rabiyya bin abu abdur rahman rahimahullah (tabayi tareek e wafaat 163 hijri) k paas tha k ek aadmi ne unse pucha "rahman arsh par istawa kese hue hai, is istawa ki kefiyat kya hai?" to unhone jawab diya: istawa kya hai ye sab ko maloom hai, aur (Allah k) is istawa ki kefiyat kya hai ye hame nhi maloom lekin is par eman lana farz hai aur is kefiyat k baare mai sawal karna bidaat hai, imam zahbi rh ne kaha "ALAWUL ALLIYIL GAFFAR" mai ye riwayat nakal ki, aur imam al albani rh ne is ko sahih sanad karar diya.

3. Ibne ayeena abu imran rahimahullah (taba tabayi tareek e wafaat 198 hijri)
kehte hai k mai rabiyya bin abu abdur rahman rahimahullah (tabayi tareek e wafaat 163 hijri) k paas tha k ek aadmi ne unse pucha "rahman arsh par istawa kese hue hai, is istawa ki kefiyat kya hai?" to unhone jawab diya: istawa kya hai ye sab ko maloom hai, aur (Allah k) is istawa ki kefiyat kya hai ye hame nhi maloom aur ye paigham Allah ki tarf se hai, aur Rasool Allah SAW k zimmey mai uski tableeg thi (so wo unhone kardi) aur hamare zimmey is ki tasdeeq karna hai (jo hum karte hai) imam habtullah bin hasan al lalkayi abu mansoor rh tareekh e wafaat 418 hijri ne "ETAQAAD AHLUS SUNNAH" mai sahih sanad k sath riwayat kiya.

4. Imam e tafseer al zihaak bin mazahim halali rahimahullah (taba tabayi tareekh e wafaat 106 hijri)
ki taraf se bayan karte hue kehte hai k unhone kaha: Allah apne arsh par hai aur uska ilm un (yani uski makhlookaat) k sath hai (imam allama qazi subhan abu ahmad asaal aur imam habdullah al lalkayi rh ne sahih sanad k sath nakal kiya)

5. Siddeque ibne muntasir kehte hai k mene sulemaan tameemi rahimahullah (taba tabayi tareekh e wafaat 172 hijri)
ko kehte hue suna: agar mujhse ye pucha jaye k Allah kaha hai to mai ye kahunga k wo aasman par hai, imam zahbi rh ki "ALAWUL ALLIYAL GAFFAR" daleel rakam 114, imam al albani rh ka kehna hai k (ye kaul) imam habtullah al lalkayi rh ne sahih sanad k sath riwayat kiya.

6. Imam abdur rahman bin umar al ouzayi rahimahullah (taba tabayi tareekh e wafaat 157 hijri)
kehte hai: hum tabayi ki mojoodgi mai bhi ye hi kaha karte they k: Allah apne arsh k uper hai aur Allah ki jo bhi sifaat sunnat e shareefa mai warid hue hai hum un par (bila taweel) emaan rakhte hai. (imam beheqi rh ne "ASMA WA SIFAAT" mai imam hakim rh ki riwayat se nakal kiya)

7. Waleed bin muslim rahimahullah kehte hai k mene imam abdur rahman bin umar al ouzayi rh aur imam malik bin anas rh (taba tabayi tareekh e wafaat 179 hijri) aur imam sufyan suri rh (taba tabayi tareek e wafaat 161 hijri) aur imam al lais bin saad fehmi misri rh (taba tabayi tareekh e wafaat 175 hijri) rahimahullah jameean se un ahadees k baare mai pucha jin mai Allah ki mukhtalif sifaat ka zikr hai to unhone kaha: is par aese hi emaan rakho jesa k ahadees mai aya hai. (MUKHTASAR ALAWUL ALLIYIL GAFFAR, imam zahbi rh

Fatawe

سوال : اجتہاد کسے کہتے ہیں ؟
جواب : اجتہاد اس وقت ہوتا ہے کہ جب نص قطعی قرآن و حدیث اور اجماع صحابہ نہ ہو، تب ہی اجتہاد ہوتا ہے ۔ نص قطعی ہے کہ مردے نہیں سنتے ۔ نبی ﷺ کے لئے فرمادیا گیا کہ وفات کے بعد یہاں نہیں بلکہ جنت الفردوس کا سب سے اونچا ان کا مقا م ہے ۔ بخاری کی حدیث میں آگیا کہ وفات کے بعد یہاں پہنچ جائیں گے ، اجماع صحابہ ہے کہ وفات پاگئے ، اب اس کے بعد اجتہاد کیا ہوگا۔ اس بات کے لئے تقاضہ تو یہ ہے کہ نص قطعی قرآن کی نہ ہو، نص قطعی حدیث کی نہ ہو، اجماع صحابہ کی نہ ہو، تب کہیں جاکر اجتہاد ہوتا ہے ۔مگر وفات نبوی کا انکار کرنے والے اب اجتہاد کررہے ہیں جس کے لئے قرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے نص قطعی موجود ہے ۔ یہ لوگ اپنے اجتہاد سے نص قطعی کو بدل دیں گے کیا؟

سوال : کیا شہید کا قیامت کے دن حساب وکتاب ہوگا،اگر کوئی شہید مقروض ہوتو اس کا بھی حساب ہوگا؟
جواب : قبر سے لے کر قیامت تک شہید پہ کیا بیتے گی ، یہ سب کچھ نبی ﷺ نے بتلادیا ہے ۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ایک  روایت آتی ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اللہ کی راہ میں بڑھتا جاؤں، جنگ کروں اور شہید ہوجاؤں تو کیا میرے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔وہ صحابی واپس جانے لگے توآپ نے ان کو دوبارہ بلوایااور کہا کہ ابھی میرے پاس جبرئیل آئے اور بتایا کہ شہید کی ہرچیز معاف ہوجائے گی مگر قرض کہ وہ معاف نہ ہوگا، اللہ اس کا حساب و کتاب کرے گا۔ اللہ کی رحمت اس پر غالب ہوگی ۔ اللہ اپنی رحمت سے اسے ادا کردے گااور یہ معاملہ نمٹ جائے گا۔

سوال : کیا امام ابوحنیفہ ؒ کی بات مانتے ہیں آپ ؟
جواب : جو اچھی بات ہو، جس کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہو، امام بخاری کی ہویا امام ابوحنیفہ کی ہو، آپ کی بات ہو یا میری بات اللہ نے ارشاد فرمایاکہ : فان تنازعتم فی شئ فردوہ الی اللہ والرسول ۔۔۔۔(النساء:59) کہ جب تم میں کوئی تنازعہ (اختلاف)ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔

سوال : قرآنی آیت "ولوانہم اذظلموا انفسھم جاءوک(النساء:64) والی آیت کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں ؟
جواب : یہ سورہ نساء کی جو آیت ہے یہ اللہ کے نبی کی زندگی کی بات ہے ۔ اس کے پہلے حصے میں فرمایا گیا: وماارسلنامن رسول الالیطاع باذن اللہ ۔ کہ ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے وہ اس لئے کہ ہمارے حکم سے اس کی پوری اطاعت کی جائے ، اپنے معاملات کا اس سے فیصلہ کرایا جائے ، مگر اللہ فرماتا ہے کہ یہ منافقین  ہیں جو ایک طرف آپ پر ایمان کے دعویدار بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اگران  کو کوئی مسئلہ پیش آجائے جس میں یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس آئیں گے فیصلہ کروانے کے لئے تو ان کے خلاف فیصلہ پڑے گاتو یہ ظالم ایسے ہیں کہ اپنے بڑوں کے پاس فیصلہ کروانے چلے جاتے ہیں ۔ اس طرح یہ ایمان کا اقرار کرنے کے بعد اللہ کے حکم کی نافرمانی اور اللہ کے نبی کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں کہ آپ کو اس لائق نہیں مانتے ۔ فرمایا جنہوں نے اس طرح اپنے نفسوں پر ظلم کیا، اس کی تلافی اور اصلاح کی ایک ہی صورت ہے کہ اگر ان کو توبہ کی توفیق ملے تو وہ آئیں اور نبی کی خدمت میں حاضر ہوکراپنے جرم کا اعتراف کریں کہ انہوں نے آپ کی موجودگی میں آپ کی بجائے منافقوں یا یہودیوں کو اپنا حکم بنایا۔ پھر اللہ سے استغفار کریں اور نبی بھی ان کے لئے اللہ سے استغفار کریں تو تب کہیں جاکر یہ پوری توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگی ۔ ولوانہم اذظلموا انفسھم جاءوک فاستغفروا اللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔ اگر یہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کے بعد تیرے پاس آجاتے اور اللہ سے استغفار کرتے اور تو بھی ان کے لئے استغفار کرتا تو یقینا وہ اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔
تو یہ ایک چیز جو خالص آپ ﷺ کی زندگی کے لئے مخصوص تھی ، اب دیکھئے کس طرح چالاکی سے اس سے فائدہ اٹھایا گیا اور کہا کہ اب جاؤ اور قبر کے پاس پہنچنے کے بعد اللہ کے نبی سے کہوکہ وہ بھی استغفار کریں ، اس طرح آپ کی وفات کے بعد بھی زندہ مانو اور اللہ کی کتاب کا انکار کروجیساکہ آجکل یہ پھیلایا جا رہا ہے ۔ پھر ایک جھوٹی روایت لائے کہ ایک بدو قبر نبوی کے پاس آیا اور اس نے یہ آیت پڑھی اور پھر قبر پر گر پڑا اور کہا کہ میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ آپ استغفار کریں تو آپ میرے لئے استغفار کیجئے ۔ جب اس نے یہ کہا تو اندر سےیہ آواز آئی  کہ تجھے معاف کردیا گیا۔ یہ بالکل جھوٹی روایت ہے ، یہ قبروں اور آستانوں کے شرک کو پھیلانے کے لئے اس قسم کی جھوٹی روایات بنائی گئی ہیں ۔ دیکھئے قرآن وحدیث کے خلاف اس روایت کو کس طرح بڑھاکر پیش کیا جارہا ہے تاکہ امت کو شرک کے اندھیرے میں ڈال دیا جائے ۔

Fatawe

سوال : کھجور کی گٹھلیوں پر یا دانوں پر تسبیح پڑھنا جیساکہ آج کل لوگ کرتے ہیں کیسا ہے ؟
جواب : یہ بدعت ہے ، نبی ﷺ نے صرف ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔ ترمذی اور ابوداؤد کی احادیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ انگلیاں قیامت کے دن تسبیح پڑھنے والے کے حق میں گواہی دیں گی ۔

سوال : ہمارے بزرگ کچھ اس طرح ذکر الہی کرتے ہیں کہ سب مل کر صرف اللہ اللہ کہے جاتے ہیں، اس کے متعلق فرمائیے، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
جواب : اللہ کا ذکر تو ہروقت ہے اور ذکر کے معنی یہی ہیں کہ اللہ تعالی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے ۔ سب سے بڑا ذکر نماز میں قرآن مجید پڑھنا ہے ۔ نبی ﷺ نے کوئی ایسا ذکر نہیں بتلایا جو مفرد کلمہ ہوبلکہ آپ نے سبحان اللہ ، الحمدللہ،اللہ اکبراور لاالہ الااللہ وغیرہ ذکر بتلائے ہیں، ان میں کوئی اکیلا کلمہ نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث کے خلاف دین بنانے والے بے ایمانوں نے صرف اللہ اللہ کا ذکر بنایا ہے ۔ انہیں بے ایمانوں نے اللہ اوراس کے رسول کے مقابلے میں یہ دین بھی بنایا ہے کہ ہرایک اللہ کی ذات کا ٹکڑا ہے ۔ صرف اللہ اللہ یاکوئی بھی مفرد کلمہ ذکر کے طور پر اللہ کے نبی سے ثابت نہیں ہے ۔ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ مسلم کی ایک حدیث آگئی ہے کہ اس وقت قیامت آئے گی جب اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ تو اس معنوں میں آیا ہے کہ اس وقت کوئی مسلم اور مومن نہیں ہوگا ۔ حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ قیامت مومنوں پہ برپا نہیں ہوگی ، قیامت سے پہلے سب مومن مرجائیں گے ۔ مسلم کی ایک اور روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب لاالہ الااللہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ اللہ اللہ کہنے والے سے مراد یہ ہے کہ اس وقت کوئی موحد نہ ہوگا ، سب کافر ہونگے۔

Fatawe

سوال : کیا بدعت احسن بھی ہوسکتی ہے ؟
جواب : بدعت احسن کوئی چیز نہیں ۔ یہ چیزرمضان میں تراویح کی با جماعت نماز سے نکالتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا ہے ۔ حالانکہ اللہ کے نبی ﷺ نے تین راتیں رمضان کے اندر جماعت سے تراویح پڑھائی ۔ اس کے بعد چوتھائی رات کو صحابہ اتنی تعداد میں آئے کہ مسجد بھر گئی اور رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے ۔اب صحابہ میں سے کچھ لوگ کھانسے کھنکارے اور کچھ نے نماز نماز پکارا تاکہ آپ اگر سو رہے ہوں تو جاگ جائیں مگر آپ پھر بھی تشریف نہیں لائے ۔ یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے نکلے اور نماز کے بعد صحابہ سے مخاطب ہوئے کہ آج رات تمہارا حال کچھ مجھ پر مخفی نہ تھا ، تمہارے اس اشتیاق کو بھی میں نے دیکھالیکن اس خوف سے کہ میں بحیثیت پیغمبرزندہ ہوں وحی آرہی ہے ، اس سے پہلے نبی اسرائیل نے ایسی سختی کی ہے کہ اللہ نے جو چیزیں فرض نہیں کی تھیں انہوں نے زبردستی کرکے فرض کروائی ہیں اور پھر نہیں کرپائے تو مارے گئے ۔ تم ایک بات میں جو اللہ نے فرض نہیں کی ہے اس طرح سے اپنے شوق کی انتہا دکھا رہے ہوتو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر یہ نماز فرض کردی جائے پھر نہ کر پاؤاور اللہ کے عذاب میں پھنس جاؤ۔ اس خدشے کی وجہ سے میں نہیں آیا۔ اس لئے تم اس نماز کو اور دوسری نفل نمازوں کو اپنے گھروں میں پڑ ھ لیا کروکیونکہ نوافل میں وہی نماز سب سے اچھی ہے جو گھر میں پڑھی جائے بجز فرض نمازوں کے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جائیں۔ (متفق علیہ)
اس کے بعد ابوبکرصدی﷜ کےدور میں اس پر عمل ہوتا رہا ۔ عمر  کے شروع کے زمانے میں بھی یہی ہوتا رہا۔ پھر ایک عمر  مسجد نبوی میں آئے اور دیکھاکہ لوگ الگ الگ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں تو کہیں تھوڑے سے لوگ کھڑے ہیں جو جماعت سے پڑ ھ رہے ہیں تب انہوں نے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کردوں ۔ آپ ﷺ کی سنت ہے کہ آپ نے تین دن تک تراویح کی نماز باجماعت پڑھائی ہے ۔ اب آپ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے ، اس لئے اس کے فرض ہوجانے کا خطرہ بھی موجودنہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے ابی بن کعب  کے پیچھے سب کو جمع کردیا تاکہ ایک جماعت ہو۔ پھر دوسری رات کو جب آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑ ھ رہے ہیں تو عبدالرحمن بن القاری جو ان کے ساتھ تھے وہ کہتے ہیں کہ عمر نے یہ دیکھ کر کہا"نعمت البدعۃ ہذہ"(یہ ایک اچھی بدعت ہے )۔ یعنی ایک کام جو نبی ﷺ کے بعد کافی عرصے سے نہیں ہورہا تھا اس کو جاری کرکے میں نے کتنی اچھی نئی بات کرلی ہے کہ اب مسجد نبوی میں ایک بار پھرتراویح کے لئے ایک ہی جماعت ہورہی ہے۔ جیسےاللہ کے نبی ﷺ نے رمضان میں تین راتیں ایک جماعت کرائی تھی لیکن اس خطرے سےکہ کہیں  یہ فرض نہ ہوجائے ، بند کردی تھی اور وہ خطرہ اب باقی نہیں رہا۔لیکن خود نہیں شریک ہوئے تھے اورنہ بہت سے صحابہ جماعت میں شریک ہوتے تھے وہ تہجد کے وقت پڑھتے تھے تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ نبی ﷺ کی سنت ہی کا اجراء تھا۔

سوال : ایک شخص صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے ، نماز ادا کرتا ہے، روزے رکھتا ہے ، حج بھی کرتا ہے ، طاغوت کی نفی بھی کرتا ہے بس صرف داڑھی صاف کرتا ہے تو کیا وہ فاسق ہے ؟
جواب : اصل میں فسق تو گناہ کے معاملے میں ہے ، اس لئے اس معنی میں گناہ گار تو ہے ۔ فسق کی جو کم سے کم شکل ہوتی ہے وہ معمولی گناہ کی ہوتی ہے ۔ کبیرہ گناہ کو بھی فسق کہتے ہیں ۔ کافرومشرک کو بھی قرآن میں فاسق کہا گیا ہے ۔ بہر حال یہ گناہ ہے اور بعض حالتوں میں یہ بڑاشدید گناہ ہے۔ بخاری و مسلم کی احادیث ہیں جن میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے سارے گناہ گار معافی کی امید رکھیں مگر جو جہر(اعلان) کے ساتھ گناہ کرے ۔ جو پکارکر گناہ کرتے ہیں ان کے لئے خطرہ ہے ۔ عورت کے لئے بے پردگی اور مرد کو داڑھی مونچھ کا صفایا یہ جہر کے ساتھ گناہ کا اعلان ہے ۔

سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ لوگ ہر وقت ایمان اور توحید ہی کی بات کرتے ہیں ، یہی ایک موضوع ہوتا ہے جبکہ کچھ اور بھی ہونا چاہئے ؟
جواب : توحید اور ایمان نہیں تو پھر کیا بے ایمانی کی بات کریں ۔ توحید ، سنت اور آخرت بہ بڑی بڑی باتیں ہیں ۔ان کو چھوڑ کر آخر کیا رہ جاتا ہے ؟
اگر لوگوں میں توحید آجائے اور یہ شرک چھوڑ دیں ، یعنی ان کا ایمان درست ہوجائے اور عقیدہ عین قرآن وسنت کے مطابق ہوجائے اور ان کے اعمال ، عبادات اور معاملات دنیا کی بجائے آخرت کو نگاہ میں رکھے ہوئے ہوں تو اس کے بعد اور کیا چاہئے ؟ کیونکہ ہمیشہ سے  یہی طریقہ رہا ہے   ۔آپ دیکھیں کہ ہمیشہ جو بھی پیغمبر آیا ، کیا انہوں نے  آکر پہلے نماز کی تبلیغ کی ؟ سب سے پہلے ہرنبی نے یہی بات اٹھائی ۔ ایمان کی بات ، آخرت کا بلاوااور توحید کا جوہری مسئلہ ۔۔ اس کے بعد موقع آتا ہے اعمال کا ۔ یہاں کس کو نماز پڑھوائیں ؟ کس سے روزے رکھوائیں؟ یہاں تو ایمان ہی نہیں ہے

Fatawe

فتاوے

سوال : قرآن میں آیا ہے کہ "کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون" تو کیا اس میں وہ خیالات جو انسان اپنے جی میں سوچتا ہے ، کیا انہیں بھی یہ فرشتے جانتے ہیں ؟ کیا اس آیت سے فرشتوں کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ؟
جواب : یہ سورہ انفطار کی آیت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اللہ تعالی نے لکھنے والے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے اعمال کو لکھ رہے ہیں ۔ اس میں وہی اعمال آتے ہیں جس کو وہ دیکھ سکیں یعنی انسانی بدن کے افعال ۔ دل کے خیالات، ارادے اور نیت سے یہ واقف نہیں ہوپاتے ۔ وہ تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔ یہ تو صرف وہ کام جانتے ہیں جو ان کے سامنے آجائے ۔ غیب کا جاننے والا تو اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں، خواہ انسان ہوں یا فرشتے ، جن یا کوئی اور مخلوق ۔ قرآن میں اس کی صراحت کردی گئی ہے ۔

سوال : مونچھیں منڈوانا کیسا ہے ؟
جواب : بخاری اورمسلم میں ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں پست کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔ بعض لوگوں نے پست کرانے سے منڈوانا مراد لیا ہے لیکن امام مالک ؒ کی بات فیصلہ کن معلوم ہوتی ہے کہ منڈنا نہیں چاہئے ، جیساکہ تاریخ میں آتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جب تفکر کے عالم میں ہوتے تھے تو اپنی مونچھوں کو دانتوں میں دبا لیتے تھے ۔ اب اگر مونچھیں مونڈدی جائیں تو دانتوں کے درمیاں دبانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ جو مونچھوں کو مونڈتے ہیں وہ مثلہ کرتے ہیں یعنی اللہ تعالی کی دی ہوئی شکل اور ہیئت کو بدلتے ہیں ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں تیرے بندے کو اس طرح سے راہ دکھاؤں گا کہ وہ صورتوں کو جو تیری تخلیق کی ہوئی چیز ہے بدل دیں گے ۔ تو امام مالک ؒ یہ مثلہ ہے اور شیطانی عمل ہے ۔ اور مسلم کی ایک روایت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کھانے پر مہمان تھے ، جب وہ پہنچے ہیں تو آپ نے فرمایاکہ مغیرہ تمہاری مونچھیں لب سے آگے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسواک اور ایک چھری منگوائی اور مسواک رکھ چھری سے جو بال آگے آگئے تھے انہیں کاٹ دیا۔ اس زمانہ میں یہی انداز ہوتا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مونچھیں مونڈ دینا صحیح نہیں ۔ 

Quran gir jane ka kaffarah ?

قرآن گر جانے کا کفارہ؟
قرآن گر جانے کا کفارہ؟
مردوں میں تو نہیں البتہ عورتوں میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ اگر غلطی سے بھی قرآن پاک گرجائے تو بہت بڑے گناہ کا سبب ہے ، اس وجہ سے اس غلطی کا تدارک کیسے کیا جائے بہت پریشان ہوجاتی ہیں ۔ ابھی رمضان کا مہینہ ہے ، قرآن کی تلاوت عام ہے جس کی وجہ سے یہ بات کافی جہتوں سے آرہی ہے ۔
اتنا جان لیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے قرآن مجید کا احترام اور تعظیم فرض ہے اس کی بے ادبی و بے حرمتی ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بسا اوقات اس کی توہین کفرتک پہنچا دیتی ہے۔اس لئے قرآن کریم لینے دینے ، اٹھانے ، رکھنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔
مگر پھر بھی غیر ارادی طور پر قرآن مجید ہاتھ سے چھوٹ کر گر جائے تو کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا ہے۔

(1)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»[سنن ابن ماجه رقم 2045 صحیح بالشواہد]۔
ترجمہ : صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔

(2)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی فضیلت کے متعلق حدیث میں ہے ’’اے ہمارے رب ہم سے مؤاخذہ نہ کر، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا‘‘ ۔
(مسلم کتاب الایمان، باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عن حدیث النفس۔۔۔ الخ،ح: 330)

مذکورہ بالا دونوں حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بندے سے اگر بھول چوک ہوجائے تو اللہ تعالی یوں ہی معاف فرمادیتا ہے ، اگر بھول سے قرآن کریم بھی گر جائے تو وہ اللہ کے نزدیک معاف ہے، نیزقرآن مجید کے گرنے پر کوئی کفارہ وغیرہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ نے بیان نہیں فرمایا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کام پر عنداللہ کوئی مواخذہ نہیں ، اور نہ ہی گوئی کفارہ دینا ہے ، اگر استغفار کرلیتا ہے تو بہتر ہے ، اور دل کی تسلی کے لئے مسکینوں میں صدقہ کردے تو بھی بہتر ہے ۔